پچھلے دنوں مودّی نے کھلے بندوں اعلان کیاکہ مشرقی پاکستان میںجو پاکستانیوں کا قتل عام ہوا۔ وہ سب کچھ بھارت نے کروایا۔ یہ حقیقت ہے جس کا میں خود چشم دید گواہ ہوں۔
جنوری 1971ءمیں میری پوسٹنگ 4 آرمی ایویشن سکواڈرن کی فلائیٹ ایویشن کمانڈ ڈھاکہ میں ہوئی اور میں سقوطِ ڈھاکہ 16 دسمبر 1971ءتک وہیں رہا۔ میرا یہ واحد آرمی یونٹ۔ 4ایویشن سکواڈرن تھا جس نے بھارت کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور 16 دسمبر کی شب پانچ ہیلی کاپٹروں میں 130 خواتین و بچے براستہ برما خدا کے فضل و کرم سے بحفاظت پاکستان لے آئے۔یوں تو گزشتہ 44 برسوں میں سقوطِ ڈھاکہ پر بہت کچھ لکھا گیا۔ مگر فوج کی کارکردگی کا تجزیہ کرنے والوں کی اکثریت فسادات اور لڑائی کے دوران مشرقی پاکستان میں موجود نہیں تھی۔ انہیں وہاں کے صحیح حالات کا اندازہ نہ تھا۔ فوج کے محاذوں پر اعلیٰ کارکردگی کی صحیح عکاسی کرنے کی بجائے حقیقت کے برعکس مشرقی پاکستان میں فوج پر جنہوں نے جان پر کھیل کر بدترین حالات میں اندرونی و بیرونی محاذوں پر بے انتہا اذیتیں جھیلتے ہوئے بھارتی فوج اور ”مکتی بہنی“ (MUKTI BEHNI) بنگلہ دیش کی باغی فوج کا نہایت بہادری سے مقابلہ کیا‘ ناحق الزام تراشی کی اور انہیں سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار ٹھہرایا۔درحقیقت سقوطِ ڈھاکہ کی ذمہ دار اس وقت کی فوج جو بغیر ضروری ہتھیاروں، ٹینکوں اور جہازوں کے تھی ہرگز نہ تھی۔ بلکہ وہ قیادت تھی جو بھارت کا وہاں بھرپور مداخلت اور ان کی سیاسی چالوں کی دانستہ و غیر دانستہ مقابلہ نہ کرسکی۔ انہوں نے بھارتی پراپیگنڈہ کے مقابلہ میں کوئی ٹھوس اقدام نہ اٹھائے۔ ابتدا سے ہی ہمارے سیاسی رہنماﺅں نے مشرقی پاکستان کے حالات کو صحیح طریقہ سے نہیں سلجھایا اور نہ ہی انہیں جائز اہمیت دی۔ ہمارے بنگالی بھائی احساسِ محرومی میں مبتلا ہوگئے۔ جس کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ مگر پاکستانی لیڈر خاموش تماشائی بنے رہے اور انہیں بھارت کی چالوں میں آنے کیلئے کھلا چھوڑ دیا۔
عوامی لیگ نے 7 دسمبر 1970ءکے قومی انتخابات میں 160 اور PPP نے 81 نشستیں حاصل کیں۔ بھاری مینڈیٹ سے الیکشن جیتنے پر شیخ مجیب الرحمن نے مطالبہ کیا کہ عوامی لیگ کو مرکزی حکومت بنانے کی دعوت دی جائے۔ اس وقت کے حاکم اعلیٰ نے ایسا کرنے میں جب توقف کیا تو سارے مشرقی پاکستان میں غم و غصہ اور مغربی پاکستان کی قیادت سے نفرت کی لہر پھیل گئی۔ حالانکہ ان دنوں جب میں جنرل یحییٰ خان کو ڈھاکہ میں ہیلی کاپٹر پر لے کر آیا تو صحافیوں نے ان سے سوال کیا کہ اب پاکستان کا وزیراعظم کون ہوگا تو انہوں نے مجیب الرحمن جو ائیرپورٹ پر ان سے ملنے آئے تھے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ان سے پوچھ لیں یہ آپ کے سامنے ہیں۔
شیخ مجیب الرحمن کو ڈھاکہ میں سٹوڈنٹ لیگ جو بہت طاقتور تھی کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ پلٹن میدان ڈھاکہ جو سیاست کا گڑھ تھا مکمل طور پر عوامی لیگ اور بنگالی طلبہ کے قبضہ میں تھا۔
بھارت نے حالات کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور بنگالیوں کو مالی امداد اور پاکستان کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ کے ذریعہ باور کروایا کہ بنگلہ دیش بھارت کی ثقافت سے زیادہ مماثلت رکھتا ہے اور بھارت ان کا دوست ہے جبکہ مغربی پاکستان ان کو جائز حق سے محروم رکھ رہا ہے ۔
مارچ 1971ءکے آغاز سے ہی مشرقی پاکستان کے حالات بہت کشیدہ و پچیدہ ہوچکے تھے۔ پہلی مارچ 1971ءکو جب قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کا اسلام آباد سے اعلان ہوا تو بنگالیوں نے بھارت کے اکسانے پر پاکستان سے آزادی کانعرہ بلند کیا۔ 2 مارچ کو مکمل ہڑتال ہوئی۔ 3 مارچ کو چٹاگانگ میں 102 پاکستانی مرد، خواتین اور بچوں کو چن چن کر شہید کیا گیا۔ 4مارچ کو طلبہ تنظیم نے اپنی آزاد حکومت کا اعلان کردیا۔ 7 مارچ کو شیخ مجیب الرحمن نے پلٹن میدان ڈھاکہ میں قوم سے خطاب کے بعد سول انتظامیہ مشرقی پاکستان مفلوج ہوکر رہ گئی۔ مکتی بہنی ‘بنگلہ دیش کی سول ملیشیا جن کو بھارت نے باقاعدہ فوجی تربیت دی تھی نے بھارتی فوج کی مدد سے مشرقی پاکستان کے سارے پُل اڑا دئیے۔ ریلوے لائن، روڈ، اور دریائی ٹرانسپورٹ کو ناکارہ بنا دیا۔ صرف شیخ مجیب جو مکمل بھارتی کنٹرول میں تھا‘ کے احکامات پر عمل ہوتا اور پاکستانی انتظامیہ کی تمام ہدایات کو دانستہ نظر انداز کردیا جاتا۔
ایسٹرن کمانڈ کے تمام بنگالی افسر اہم دستاویزات اور احکامات بھارتی فوج کو لمحہ بہ لمحہ پہنچا رہے تھے۔ انہی حالات میں 25 مارچ کو ایک سنگین بحران نے جنم لیا۔ تمام ایسٹ بنگال رجمنٹ (EBR) اور ایسٹ پاکستان رائفلز (EPR) جن کی تعداد ایک لاکھ 20 ہزار تھی نے بغاوت کردی۔ 80 ہزار” مکتی بہنی“ جن میں بھارتی فوجی ملوث تھے‘ مغربی پاکستانیوں کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتارنا شروع کردیا۔ اس مقصد کیلئے باقاعدہ قتل گاہیں اور دریا کے کنارے ذبح خانے بنائے گئے۔ چند بڑے شہروں کی چھاﺅنیوں کے علاوہ سارے مشرقی پاکستان کا نظام باغیوں اور بھارتی فوج کے ہاتھ چلا گیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے اقبال اور جگن ناتھ ہال میں مغربی پاکستانی طلبہ و طالبات کو اغوا کرکے ان کی بے حرمتی کرنے کے بعد نہایت بے رحمی سے قتل کیا۔ان مخدوش حالات پر قابو پانے اور مشرقی پاکستان کا سول نظام چلانے کیلئے اس وقت پاک فوج کا صرف پرانے اور بوسیدہ ہتھیاروں سے لیس ایک انفنٹری ڈویژن اندرونی اور بیرونی محاذوں پر دشمن سے مقابلہ کررہا تھا۔ پاک بھارت سرحد پر بھارتی فوج کے حملے ہر روز کا معمول بن چکے تھے اور اندرون ملک بنگالی یونٹ کے باغیوں اور مکتی بہنی سے جن کو بھارت کی طرف سے جدید اسلحہ اور مالی امداد حاصل تھی سے مقابلہ تھا۔ پاکستان ائیر فورس نہ ہونے کے برابر تھی۔ ڈھاکہ میں پرانے F/86 کے 14 جہازوں کا صرف ایک سکواڈرن تھا۔ مشرقی پاکستان کے سینکڑوں میل کی سرحد پر پھیلے ہوئے اس 14 ڈویژن کے پاس مختلف چھاﺅنیوں میں اسلحہ پہنچانے، زخمیوں کو ہسپتال لانے، کمانڈوز کے ساتھ آپریشن کرنے، یونٹ کی نقل و حرکت اور مغربی پاکستان کی عورتوں اور بچوں کو ڈھاکہ کیمپوں میں لانے کے لئے میری زیرِ کمان 4 آرمی ایویشن سکارڈرن کے صرف تین کارگو اور دو چھوٹے ہیلی کاپٹر تھے۔
پاک فوج بھارتی اور بنگالی باغیوں کے مقابلہ میں بہت کم اور بوسیدہ اسلحہ سے لیس تھی۔ تمام فوجی یونٹ بھارت کی جنگی تیاریوں اور ممکنہ حملہ کے پیش نظر سینکڑوں میل کی سرحد پر پھیلے ہوئے تھے۔ صوبہ کا اندرونی حصہ باغیوں کے رحم و کرم پر تھا۔ تعداد و شمار کے لحاظ سے پاک فوج کا بھارت کے ساتھ کوئی مقابلہ نہ تھا‘ پھر بھی پاک فوج جذبہ¿ جہاد سے سرشار طویل مدت تک لڑنے مرنے پر تیار تھی۔ مگر افسوس وہاں ہماری تائید اور مدد کی بجائے بھارت کی مداخلت کی بھرپور مدد کی وجہ سے ہمیں نفرت اور حقارت کی دشمنی ملی۔ جس کے آگے ہم بے بس ہوگئے۔ دشمن سے لڑنا آسان تھا مگر اپنے ہی بنگالی باغی پاکستانیوں سے جو گمراہ ہوچکے تھے لڑنا بہت مشکل تھا۔
پاکستان ڈے (Pakistan Day) 23 مارچ کو شیخ مجیب الرحمن نے تمام مشرقی پاکستان میں یوم احتجاج منانے کا اعلان کردیا۔ تمام سرکاری و غیر سرکاری عمارتوں پر بنگلہ دیش کے نئے پرچم لہرا دئیے۔ T.V پر آزادی کا نغمہ ”سنار بنگلہ“ فردوس بیگم نے بار بار گانا شروع کردیا۔ پاکستان کے جھنڈے اور قائداعظم کی تصاویرنذرِ آتش کردیں اور ان کی جگہ بنگلہ دیش کے جھنڈے لہرا دئیے۔ بنگالی دکانداروں نے پاکستانیوں کو روزمرہ کی چیزیں بیچنے سے انکارکردیا۔ پاکستانیوں کی سب دکانیں لوٹ کر جلا دیں اور مالکوں کو شہید کردیا۔
27 مارچ 1971ءکو میجر ضیاالرحمن، جس نے میرے ساتھ ایک ہی سنڈیکیٹ میں سٹاف کالج کوئٹہ کیا تھا اور بعد میں بنگلہ دیش کا پریذیڈنٹ بنا اور اپنے ہی بنگالی فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہوا، نے میرے ہی کورس 9K P.M.Aکے اپنے کمانڈنٹ آفیسر کرنل عبدالرشید جنجوعہ کو 8E.B.Regt کے C.O کے آفس میں اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا اور اسے شہید کرکے بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کردیا اور خود چٹاگانگ میں بنگلہ دیش کا کمانڈر ان چیف بن گیا۔ اور وہاں کے تمام پاکستانیوں کو ان کے خاندان سمیت نہایت بے رحمی کے ساتھ قتل کردیا۔ حالات بد سے بدتر سے بدتر ہوتے گئے۔ بھارتی فوجیوں کی مدد سے باقاعدہ اعلان جنگ کردیا۔ چٹاگانگ ایک سنگین میدان جنگ بن گیا۔ پاک فوج کے ایک ایک سپاہی نے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔
....(جاری)................