تقاریر کے لئے کم وقت دینے پر اپوزیشن کا پنجاب اسمبلی سے واک آئوٹ

لاہور (خصوصی نامہ نگار /کامرس رپورٹر + سپورٹس رپورٹر) پنجاب اسمبلی میں بجٹ پر عام بحث کے دوران اپوزیشن نے تقریر کیلئے مقررہ سے کم وقت ملنے پر ایوان کی کارروائی سے واک آئوٹ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا، حکومتی ارکان کی طرف سے بجٹ کے حق میں جبکہ اپوزیشن کی طرف سے مخالفت میں تقریروں کا سلسلہ گزشتہ روز بھی جاری رہا، بعض حکومتی ارکان نے ترقیاتی فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم کا معاملہ اٹھاتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس سلسلہ میں صوبہ بھر کے اضلاع میں سروے کرایا جائے۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ پورے ملک کا نظام کلمہ طیبہ سے منسلک ہے۔ ملک کا نظام معیشت کے تحت چلتا ہے اور ہم نے اس شعبے کو اللہ اور اسکے رسول ؐ کے احکامات سے ٹکرا دیا ہے ۔ ہمارا نظام سود پر چل رہا ہے، وفاق کی طرف سے کسانوں کے لئے پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے لیکن پنجاب نے اپنے طور پر کچھ مختص کرنے کی بجائے وفاق کے بجٹ کو دہرا دیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کو پانچ فیصد مزید بڑھایا جائے اسی طرح پنشنرز کی پنشن میں بھی مزید دس فیصد اضافہ کیا جائے۔ بڑے ہائیڈرل منصوبوں کے بغیر بجلی کی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں ۔کالا باغ ڈیم بننا چاہیے، جنوبی پنجاب کے 1070منصوبوں کے فنڈز میٹرو ٹرین پر لگا دئیے گئے ایسے اقدامات سے ہمارے حقوق پر ڈکیتی ماری جاتی ہے ۔ ہم لاہور کی ترقی کے خلاف نہیں لیکن ہمیں یہ اپنی قیمت پر قبول نہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ بہاولپور صوبے کو بحال اور جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنایا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کے حاجی عمران ظفر نے کہا کہ بجٹ میں تعلیم پر فوکس کیا گیا ہے۔ خاتون رکن اسمبلی شمیلہ اسلم نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تمام شعبوں کو مراعات دی گئی ہیں۔ ڈاکٹر عالیہ آفتاب نے کہا کہ ایک این جی او کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں خصوصی افراد کی تعداد5.35ملین تک پہنچ چکی ہے۔ خصوصی بچوں کیلئے ٹیوٹا جیسے اداروں میں سکلز ٹریننگ پروگرام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اقلیتی رکن ذوالفقار غوری نے کہا کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں اقلیتوں کے لئے 46کروڑ روپے رکھے گئے لیکن مجھے صرف ڈیڑھ کروڑ دیا گیا۔ میرا مطالبہ ہے کہ تمام اقلیتی اراکین میں فنڈز برابری کی بنیاد پر تقسیم کئے جائیں۔ ڈاکٹر مراد راس نے ایوان میں گندے پانی سے بھری بوتل لہراتے ہوئے کہا کہ یہ صرف میرے حلقے میں نہیں پورے لاہور میں یہی حالات ہیں۔ محمد عمر جعفر نے کہا کہ دیہات کی طرح شہروں کو بھی صاف پانی کی سکیمیں دی جائیں۔ محمد یعقوب ندیم سیٹھی نے کہا کہ عوام،کسان دوست بجٹ پیش کرنے پر حکومت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میاں مرغوب نے کہا کہ حکومت نے جامع اور متوازن بجٹ پیش کیا۔ حنا پرویز بٹ نے کہا کہ حکومت انفراسٹرکچر کیساتھ سوشل سیکٹر کی طرف جارہی ہے جو خوش آئند ہے۔ شنیلا روت نے کہا کہ رواں مالی سال کا 50فیصد بجٹ استعمال ہی نہیں ہو سکا۔ ہر چیز پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے یہاں تک کے دودھ کو بھی مہنگا کر دیا گیا۔ ذوالفقار علی خان نے کہا کہ قیادت نے وعدہ کیا تھاکہ تلہ گنگ کو ضلع کا درجہ دیا جائے گا، حلقے کے عوام اس وعدے کی تکمیل کے منتظر ہیں۔ میاں مناظر علی رانجھا نے کہا کہ ہمیں ایک پاکستان اور ایک پنجاب کی بات کرنی چاہیے۔ ہمیںجنوبی پنجاب کی بات نہیں کرنی چاہیے۔ ایم پی اے طاقتور ہو گا تو حکومت طاقتور ہو گی ۔ طبی مراکز کی حالت زار دیکھ کر رونا آتا ہے وہاں زندگی کے آثار نہیں ہیں۔ آصف محمود نے کہا کہ بجٹ الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے۔ صحت اور تعلیم سے زیادہ اللے تللوں پر خرچ کر دیا گیا۔ ق لیگ کے ڈاکٹر محمد افضل نے کہا کہ بجٹ میں نیا کچھ نہیں ہے۔ چولستان میں ترقیاتی کاموں کے نام پر عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ پانامہ لیکس کے ذریعے حکمرانوں نے ملک کو لوٹا ہے ان تمام افراد کا احتساب ہونا چاہیے۔ رمیت سنگھ اروڑا نے مطالبہ کیا کہ اگلے بجٹ میں سکھ ہیرٹیج کو ترقی دینے کے بھی سکیمیں متعارف کرائی جائیں۔ پاکستان زرعی ملک ہے اس شعبہ پر توجہ دی جانی چاہیے۔ ڈاکٹر نادیہ عزیز نے کہا کہ موجودہ حکومت کا یہ نواں بجٹ ہے جس سے صوبے میں روزگار اور ترقی کی راہیں کھلیں گی۔ میرا مطالبہ ہے کہ خالی پلاٹس پر لگنے والے ٹیکس کو واپس لیا جائے۔ عفت معراج نے کہا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے کسانوں کے لیے ایک ارب کا پیکج متعارف کرا کے کسان دوست ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ خدیجہ عمر کی جانب سے ق لیگ کی قیادت کی تعریف پر حکومتی بنچز کی جانب سے چور چور کے آوازے کسے گئے۔ اس دوران اپوزیشن رکن عارف عباسی بھی ان کے حق میں بولنے لگے کہ حکومتی ارکان کی وجہ سے خدیجہ عمر کو پورا ٹائم نہیں مل سکا ہے۔ جس پر سپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ آپ کس حیثیت سے بول رہے ہیں آپ کو بولنے کے لیے نہیں کہا گیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے بھی مطالبہ کیا کہ خدیجہ عمر کو بولنے کا پورا موقع دیا جائے سپیکر کی جانب سے ایسا نہ کرنے پر اپوزیشن ارکان بائیکاٹ کر کے ایوان سے باہر چلے گئے۔ بعدازاں اپوزیشن ارکان کو ایوان میں منا کر لایا گیا تو سپیکر کی جانب سے خدیجہ عمر کو مزید دو منٹ بات کرنے کی اجازت دی۔ حکومتی رکن شیخ علاء الدین نے کہا کہ چھانگا مانگا جنگل کی بحالی کے لیے دو کھرب درخت لگائے جائیں تو 74ء کی پوزیشن پر واپس آ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خواجہ سروں کی نوکریوں کا بھی بندوبست کیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...