واشنگٹن(نمائندہ خصوصی) ریپبلکن پارٹی کے ممکنہ امریکی صدارتی امیدوار ٹرمپ کی جانب سے ہم جنس پرستوں کے نائٹ کلب پر فائرنگ کے واقعہ کے بعد مسلمانوں پر تعاون نہ کرنے کے الزام کے جواب میں پاکستانی نژاد امریکی نے کہا ہے کہ ٹرمپ کا الزام غلط ہے اور انہوں نے 2014میں ایف بی آئی کو عمر متین کے بارے میں بتایا تھا۔ 1979ء میں 6سال کی عمر میں امریکہ جانیوالے محمد اے ملک نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون لکھا ہے جس میں کہا ہے کہ ٹرمپ کا یہ الزام کہ مسلمان قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے ساتھ تعاون نہیں کرتے غلط ہے۔ واضح رہے اے ملک اسی مسجد میں نماز پڑھتے رہے ہیں جہاں عمر متین نماز پڑھتا تھا۔ اے ملک نے لکھا کوئی بھی یہ نہیں جان سکتا کہ کسی کے دل میں کیا ہے۔ ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ ہم ملک کی مدد کرنے کی اہلیت کے باوجود ایسا کرنے سے انکار کر دیتے ہیں بالکل غلط اور قابل افسوس ہے۔ عمر متین ہمیشہ خاموش رہتا تھا۔ عمر متین سے ایف بی آئی نے پہلی مرتبہ 2013ء میں تفتیش کی تھی جب اس نے اپنے کام کرنیوالے ساتھیوں کو دھمکی دی تھی۔ تاہم عمر متین اس وقت قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار نہ پائے۔ 2014ء میںاے ملک نے ایف بی آئی شام میں حملہ کرنیوالے خود کش بمبار منیر احمد ابو صالح سے عمر متین کے تعلق کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ اے ملک نے لکھا عمر متین نے مجھے بتایا کہ وہ یمن کے امام انور العوالکی کی تقریر سنتا رہا ہے جس پر میں نے ایف بی آئی کو آگاہ کر دیا۔ مگر اسکے انقلابی سوچ رکھنے کے شواہد نہ ملنے پر کیس پھر بند کر دیا گیا۔اے ملک نے لکھا عمر متین جزوی طور پر امریکہ میں مسلمانوں اور دیگر کیخلاف متعصبانہ برتائو سے پریشان تھا۔ وہ جب سینٹ لوئس کاونٹی کورٹ ہائوس میں سکیورٹی گارڈ کے طور پر کام کرتا تھا اس نے بتایا تھا آنیوالے لوگ اسے دیکھ کر اسلام کیخلاف نازیبا کلمات کہہ کر جاتے ہیں، اسی طرح سیاہ فاموں کے متعلق بھی غلط باتیں کی جاتیں تھیں۔دریں اثناء ایف بی آئی کے حکام کا کہنا ہے کہ عمر متین اسلام کی نمائندگی نہیں کرتا وہ خود ساختہ انتہا پسندی کا شکار تھا، داعش یا کسی بیرونی دہشت گرد تنظیم سے اس کا کوئی تعلق ثابت نہیں ہو سکا۔
عمر متین کے متعلق 2014ء میں ایف بی آئی کو بتایا تھا: پاکستانی نژاد امریکی
Jun 22, 2016