ممبر پنجاب اسمبلی انعام اللہ خان نیازی نے بتایا کہ نواز شریف بہت بہادر آدمی ہیں۔ ناصر اقبال خان کی طرف سے دی گئی افطاری میں میزبان تو حافظ شفیق الرحمن تھے۔ ان کی طرف سے افطار کا خطبہ بھی میزبانی کا حصہ تھا۔ یہاں مہمان زیادہ تر صحافی تھے۔ مگر انعام اللہ خان ایک سیاسی شخصیت ہیں اور ڈاکٹر اظہر وحید ایک عمدہ معالج اور واصف علی واصف کے عاشق ہیں۔
انعام اللہ خان نیازی نے کہا کہ ایک دفعہ دیال سنگھ کالج میں ایک مخالف نے کلاشنکوف سے فائرنگ کر دی۔ نواز شریف ایک قدم پیچھے نہ ہٹے اور آگے بڑھ کر کلاشنکوف پر ہاتھ ڈال دیا۔ وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران کے دفتر میں نواز شریف کے بہت قریب چودھری غفور نے اس بات کی تائید کی وزیر اور مشیر بننے والے چودھری غفور نے بتایا کہ نواز شریف ایک ہفتے کے بعد پاکستان آ رہے ہیں۔
چودھری صاحب لندن بھی گئے۔ صرف نواز شریف کی عیادت کیلئے انہیں دیکھنے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں نواز شریف اپنی صاحبزادی کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ مریم نے نواز شریف کی عدم موجودگی میں ان کی بھرپور نمائندگی کر کے اپنی اہلیت کو ثابت کر دیا ہے۔ چودھری صاحب کیپٹن صفدر کے بہت معترف ہیں۔ وہ ان کی صوفیانہ سرگرمیوں کا بھی بہت احترام کرتے ہیں۔ عشق رسول کی خوشبو چودھری صاحب کے آس پاس رہتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کیپٹن صفدر بھی بخشش رسول خدا کا چراغ اپنے دل میں جلائے ہوئے ہیں۔
کاسمو کلب میں اس افطاری کیلئے نوائے وقت کی کالم نگار رابعہ رحمان اور شاعرہ ادیبہ ڈاکٹر پروفیسر شاہدہ دلاور شاہ بھی موجود تھیں اور شاید یہی دو خواتین تھیں یہاں ہونا بلاشبہ ان دونوں کی اہلیت اور حوصلے کا ثبوت ہے۔ افتخار مجاز تو ان جگہوں پر ہوتا ہے کہ مجھ سے گپ شپ کرے اور گھر تک چھوڑنے کیلئے بھی آئے۔ اس کے ساتھ بڑے بھائی اعزاز احمد آزر مرحوم کی باتیں ضرور ہوتی ہیں۔ نوائے وقت کے ڈپٹی ایڈیٹر اور کالم نگار محمد سعید آسی بھی شریک محفل تھے۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کے دفتر میں ہمیشہ ٹیلی وژن پر ایک ہی چینل چل رہا ہوتا ہے جو جانوروں کی سرگرمیاں ،معمولات اور مشاغل پر مشتمل ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ جانوروں میں کوئی منافقت نہیں ہے دوست بلاخوف و خطر اعتبار کرسکتے ہیں وہ زندگی کے فطری طرز عمل کو اپنا طرز زیست بناتے ہیں۔ مسلسل جدوجہد کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ شکار کس طرح کرنا ہے اور زندگی کی حفاظت کس طرح کرنا ہے۔ انسان اس سارے عمل سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ چودھری غفور اکثر ڈاکٹر مجاہد کامران کے پاس بیٹھے ہوتے ہیں وہ ایک مخلص اور مروت والے انسان ہیں۔
آج ٹی وی چینل پر دکھایا جارہا تھا کہ لومڑیاں کس طرح شیر کو غچہ دیتی ہیں اور بچ نکلتی ہیں۔ چودھری غفور لومڑیوں کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ محفوظ زندگی گزارنے کے لئے لومڑیوں کے نقش قدم پر چلنا چاہئے۔ ہمارے کچھ سیاستدان تو لومڑی کو اپنا لیڈر سمجھتے ہیں۔ چودھری صاحب کو لومڑیوں کے حوالے سے ایک بہت بامعنی اور ہماری سیاسی صورتحال کے لئے برمحل لطیفہ یاد آگیا۔
بھیڑوں کے ریوڑ کو خربوزوں کا کھیت نظر آیا۔ بھیڑیں بھوک بھی محسوس کررہی تھیں مگر کچھ ہچکچا رہی تھیں اتنے میں ایک لومڑی نے انہیں تسلی دلائی اور کہا کہ میرے پاس شیر کا رقعہ ہے۔ سب مل کر بھوک مٹانے لگے۔ اتنے میں بڑے بڑے کُتے آ گئے لومڑی سب سے پہلے بھاگ نکلی۔ بھیڑوں نے کہا کہ شیر کا رقعہ تو نکالو۔ لومڑی نے کہا یہ سب کتے ان پڑھ ہیں۔ ان جاہلوں کو رقعے کا کیا پتہ۔ تم بھاگو جلدی سے باہر نکلو۔
آتش بیاں مقرر اور آتش فشاں وزیرخواجہ سعد رفیق نے پیپلز پارٹی والوں کوبہت کھری کھری بلکہ کھری کھوٹی سنائیں۔ انہوں نے اعتزاز احسن کو بہت رگڑا دیا۔ خورشید شاہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ کیوں مسلم لیگ ن کے خلاف متحدہ اپوزیشن کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں بیک وقت گلے پڑنا اور پا¶ں پڑنا کہ پرویز رشید تو خورشید شاہ کے پا¶ں پڑ رہے ہیں اور خواجہ سعد رفیق گلے پڑ رہے ہیں۔ اس وقت شاہ صاحب کا گریبان اور پا¶ں دونوں ن لیگ کے قبضے میں ہیں۔
اس کے ساتھ خواجہ صاحب نے آصف زرداری کو مین آف وزڈم قرار دیا۔ انہیں دانشمند کہا۔ (شکر ہے دانشور نہیں کہہ دیا) یہ بھی کہا کہ وہ بڑے دور اندیش ہیں۔ آجکل وہ ویسے بھی پاکستان سے بہت دور امریکہ میں ہیں۔ وہاں بیٹھ کر پاکستان کے لیے سوچنا دوراندیشی ہی ہے۔ وہی خورشید شاہ کو سمجھا سکتے ہیں؟
خورشید شاہ بھی پرویز رشید کے دو دفعہ پاﺅں پڑنے سے مروت میں آ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران اور قادری کے دھرنے سکرپٹڈ تھے اور ہونگے وہ یہ تو بتائیں کہ یہ سکرپٹ کس نے لکھا ہے۔ یہ بھی پرویز رشید کی خوش خبری سنا دی۔ خواجہ سعد رفیق بھی خوش ہو جائیں۔ سڑکوں پر آنے کا فیصلہ بلاول کریں گے۔
خورشید شاہ بہت بھولے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ سارے فیصلے بلاول کرتے ہیں اور اس کو ہدایات زرداری صاحب دیتے ہیں۔ خورشید نے ایک مزاحیہ بات یہ کی کہ پانامہ لیکس کے لئے اس حد تک نہیں جائیں گے۔ کہ تیسری قومی آ جائے یہ تو بتائیں کہ کس حد تک جائیں گے۔ شاہ جی جانتے ہیں کہ سیاستدانوں کی کرپشن کے لئے ہی تیسری قوت آتی ہے اب بھی اس کے بوٹوں کی آہٹ سیاستدانوں کو خوابوں میں سنائی دے رہی ہے۔
میرے دوست بہت اچھے وکیل اطہر من اللہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے مستقل جج بن گئے ہیں اور جج کسی کے دوست نہیں ہوتے۔ ایڈووکیٹ اطہر میرے دوست ہیں۔ اطہر من اللہ سے جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کی تحریک میں آشنائی ہوئی تھی۔ وہ بہت سرگرم تھے پھر جسٹس افتخار چودھری بحال ہو گئے اور ہم بے حال ہو گئے۔ چیف جسٹس افتخار کی رعونت عدالتی رعونت بن کر سامنے آئی۔ وہ اپنے لئے قربانی دینے والوں کی نظر میں بہت جلد کہیں گر کر کھو گئے جسٹس افتخار چودھری کسی کو ملے تو ہمیں اطلاع دیں۔ کسی کو کچھ نہیں کہا جائے گا؟