تاریخ ساز بے نظیر

Jun 22, 2016

جہاں آراء وٹو

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ایک ایسا نام ہے جو بول کر یا سن کر مسرت اور دکھ جیسے دونوں جذبات کیفیت پر طاری ہو جاتے ہیں۔ مسرت اور خوشی اس لیے کہ سن کر فخر محسوس ہوتا ہے اس بیٹی پر جس نے اپنے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار کے ایوانوں سے لیکر جیل کی کالی کوٹھری تک جاتے دیکھا جنہوں نے کم عمری میں بھٹو صاحب سے سیاست سیکھی۔ خاموشی سے انکے ساتھ رہ کر انکے نظریے کو ان کی سوچ کو اپنے اندر سمو لیا۔اور پھر جب بے رحم وقت کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کر دیا گیا تو ایک نہتی، کمزور اور کمسن لڑکی ہو کر بھی کس بہادری، دلیری کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا، اسیری کے دنوں میں بھٹو صاحب نے محترمہ بے نظیر کو لکھا کہ ’’آپ تب تک اپنی مٹی کا دفاع نہیں کر سکتے جب تک اسکی مہک سے واقف نہ ہوں‘‘۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جیل اور قید کی صعوبتیں برداشت کیں انہیں کتنے دن قید تنہائی میں رکھا گیا اور جیل کی غلیظ آب و ہوا کی وجہ سے محترمہ کے کان میں بری طرح انفیکشن ہو گیا وہاں سے بیماری میں ہسپتال منتقل کیا گیا اور پھر گھر کے اندر نظر بند رکھا گیا۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد محترمہ مٹی کی محبت میں ’’روٹی، کپڑا، مکان مانگ رہا ہے ہر انسان‘‘ کا نعرہ لیکر عوام میں اتریں۔ ہمارے ہاں موروثی سیاست پر کافی سوال اٹھائے جاتے ہیں لیکن اگر مثال دیکھنی ہو تو بے نظیر بھٹو کی لیں جنہوں نے شدید جدوجہد اور محنت کرکے ایک زوال پذیر ہوتی ہوئی پارٹی کا جھنڈہ اٹھایا، اس سفر میں اس وقت کے اپنے والد کے کئی ساتھیوں نے محترمہ کی لیڈر شپ کو قبول نہ کیا۔ ’’میں جانتی ہوں کہ بہت سارے لوگ میری مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ میں ایک خاتون ہوں، نوجوان ہوں اور بھٹو ہوں‘‘۔ لیکن محترمہ نے ہمت نہ ہاری اور جلاوطنی کے بعد جب 1988ء میں وطن واپس تشریف لائیں تو انکے استقبال میں پاکستان کی سیاست کا رُخ بدل لیا۔ ایک تازہ ہوا کا جھونکا اس گھٹے ہوئے آمرانہ، ماحول میں پاکستانی عوام نے بھٹو کی بیٹی کی بھرپور پذیرائی کی۔محترمہ نے پورے پاکستان میں پارٹی کی میٹنگز کیں۔ انکی خصوصیت تھی کہ ورکرز اور ساتھیوں سے مسلسل رابطہ میں رہتی تھیں۔ ای میل کا استعمال خوب کرتیں اور فوراً جواب بھی دیا کرتی تھیں۔ ورکرز کے ساتھ تحمل سے پیش آتیں اور خندہ پیشانی سے انکی باتیں سنتیں جب لیڈر کا نظریہ سوچ تمام دنیا کے ایشوز پر ہو اور وہ عوام کیساتھ بھی انکے دکھ درد اور مشکلات میں کھڑا ہو تو اس کو کامیابیاں حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بے نظیر بھٹو شہید نے تاریخ رقم کی اور تمام دنیا اسلام کی سب سے پہلی خاتون وزیر اعظم ہیں۔
’’ایک خاتون لیڈر ہونے کی حیثیت سے میں لیڈر شپ کے مختلف نظریہ کو سامنے لانا چاہتی ہوں‘ عورتوں کے معاملات میں توجہ دینا چاہتی ہوں، ایک عورت کی حیثیت سے میں سیاست کو مختلف سمت دینا چاہتی ہوں، ایک ماں کی‘‘۔ محترمہ نے زندگی میں بہت عروج و زوال دیکھا۔ ’’میں نے ایک مختلف زندگی گزاری ہے، میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے پچاس سالہ باپ کی اور دو جواں سال بھائیوں کی تدفین کی۔ میں نے اپنے بچوں کو ایک اکیلی ماں کے طور پر پالا۔ جب میرے شوہر کو آٹھ سال بغیر جرم کے قید کرکے رکھا گیا تاکہ مجھے سیاسی طور پر بلیک میل کیا جا سکے‘‘۔
بے نظیر بھٹو شہید کی تصاویر جن میں وہ بھٹو صاحب کی بیمار پرسی کر رہی ہیں جب وہ قید میں تھے پھر چھوٹے چھوٹے بچوں کی انگلی پکڑے آصف علی زرداری صاحب کو جیل میں ملنے کیلئے جاتے ہوئے۔ پاکستان کی سیاست میں انتقا کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے UN کی اپنی تقریر میں جو جملہ کہا ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا اور عوام کا اس جملے سے گہرا تعلق ہے پاکستان نے آمریت کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو کو کھو دیا۔ ’’میرا ارادہ ہے کہ میں اکتوبر میں پاکستان جا کر الیکشن لڑوں‘‘۔ لیکن تاریخ نے ایک بار پھر پاکستان پر ظلم کیا ہے اسکی عوام پر ظلم کیا اور جب محترمہ واپس آئیں تو وہ انہیں قوتوں کوکھٹک گئیں جو پاکستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھیں۔ سب سے پہلے کارساز کے مقام پر انکے جلوس پر حملہ کر دیا گیا۔ 150 لوگ شہید ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے جو کہ ایک پیغام تھا کہ اپنی الیکشن مہم بند کر دو۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جانتے ہوئے انکی جان کو خطرہ ہے، راولپنڈی میں عظیم الشان جلسے سے خطاب کرنے گئیں۔ انہوں نے کہا میں پاکستان پیپلز پارٹی کو نہیں، پاکستان کو بچانے آئی ہوں اور جو دہشتگرد یہ کہتے ہیں کہ ہم سوات سے پاکستان کا پرچم اتار دینگے تو میں مر تو جائوں گی ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ میں مسلمان کی بیٹی ہوں اور میرا ایمان ہے کہ موت کا دن مقرر ہے اور کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ میں پاکستان چھوڑ کر چلی جائوں لیکن میں بتانا چاہتی ہوں کہ میرا آپ سے عہد ہے کہ میرا جینا مرنا آپکے ساتھ ہے۔ آج سوات پر جو پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا ہے وہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے پاک خون کی مہربانی ہے۔
کبھی قتل ہو گئے دار پر، کبھی خون گرا سر راہ پر
میں وہ نام ہوں جو گراں ہوا میرے چارہ گر کے مزاج پر

مزیدخبریں