دور حاضر کی عظیم ہستی حضرت ابو انیس صوفی محمدبرکت علی لدھیانویؒ کا عرس مبارک 16 رمضان المبارک کو بڑی عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک بہت بڑی تقریب کیمپ درالاحسان سمندری روڈ فیصل آباد میں اور دوسری بڑی تقریب مرکزالاحسان چک نمبر 128 (ب) ضلع فیصل آباد فیضان البرکت سرگودھا روڈ فیصل آباد، مرکز دارالاحسان سالاروالا، دارالاحسان ثانی شیخوپورہ روڈ گوجرانوالہ میں منعقد کی جا رہی ہے۔ حضرت صوفی محمد برکت علی لدھیانویؒ مادر زاد ولی تھے۔ ملک کے اندر و باہر دین کی تبلیغ اور خدمت کے جو کار ہائے نمایاں اس عظیم درویش نے انجام دیئے۔ وہ کسی عام آدمی کے بس میں ہو نہیں سکتے۔ انہوں نے دین کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ خدمت کیلئے جو انداز اپنایا وہ انہی کا کارنامہ ہو سکتا ہے۔ آپ ایسے بزرگ تھے گویا:
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
1977ء میں راقم اور میرے ایک دوست حبیب چودھری فیصل آباد سے ایک روزنامہ اخبار نکالا کرتے تھے۔ حبیب چودھری روزانہ اپنے اخبار میں حضرت صوفی برکت علی لدھیانویؒ کے مقالات حکمت شائع کیا کرتے تھے۔ میں نے حبیب چودھری سے دریافت کیا کہ یہ صوفی صاحب کون ہیں؟ جن کے آپ آئے روز مقالات حکمت شائع کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت بڑے بزرگ ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ ان سے مجھے بھی ملوائیے۔ چند روز کے بعد حبیب چودھری مجھے صوفی صاحب کے پاس لے گئے۔ صوفی صاحب نے مجھے دیکھتے ہوئے حبیب چودھری سے کہا کہ آپ ایک بہت بڑی اور اچھی شخصیت کو میرے پاس لے کر آئے ہیں۔ مجھے انہیں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں نے آپکے گلے میں ایک ہار ڈالنا ہے۔ آپ میرے ساتھ قرآن محل میں چلیں۔ میں انکے ساتھ قرآن محل میں چلا گیا۔ انہوں نے میرے گلے میں ایک شاندار ہار ڈال کر مجھے بے حد خوش کر دیا۔ اس حاضری کے بعد میری دلی کیفیت کچھ ایسی ہو گئی کہ بار بار انکے پاس جانے کو جی چاہتا تھا۔ انکے ہاں حاضری سے دل کو ایسا سکون حاصل ہوتا تھا کہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ان ملاقاتوں کے دوران ایسے واقعات رونما ہوئے کہ لکھنے بیٹھوں تو بات ختم ہونے میں ہی نہ آئے۔ انکی کرامات کے حوالے سے ہم نے مون ڈائجسٹ کے 23 خصوصی نمبرز شائع کئے ہیں۔ ہم نے حال ہی میں انکی دینی خدمات کے حوالے سے مون ڈائجسٹ کا خصوصی نمبر شائع کیا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
حضرت صوفی محمد برکت علی لدھیانوی نے اپنی زندگی میں ہی سالار والا میں اپنی موروثی جائیداد اسلام کیلئے وقف کر دی تھی اور یہاں پر عظیم ادارے دارالاحسان کی بنیاد رکھی، جس کے وابستگان آج دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پندرہ سال فوج کی سروس کے دوران انکی بہت کٹھن تربیت ہوئی اور انکی اس تربیت کا رنگ بعد میں انکے کارناموں میں نظر آتا ہے۔ ابتداء میں درالاحسان کے اندر کچے مکانات تھے اور یہاں پر ہی قرآن حکیم محل بنایا گیا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ حضرت صوفی ابوانیس محمد برکت علی لدھیانویؒ کو قدرت نے یہ ڈیوٹی تفویض کر رکھی ہے کہ وہ قرآن حکیم کے اوراق تک کو اکٹھا کر کے اہتمام سے رکھیں اور یوں قرآن حکیم کی عظمت سے پوری ملت اسلامیہ کو آگاہ کریں۔ آہستہ آہستہ انکے عقیدت مندوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا جس میں کئی عالم فاضل اور بابو ٹائپ قسم کے لوگ شامل ہیں مگر انکی زندگیاں بدل کر رہ گئی ہیں۔ ایسے لوگوں کی ایک بڑی تعداد جو گناہ کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے مگر نگاہی بخشؒ کے فرزند ارجمند نے انہیں اک نگاہ التفات سے سراپا مسلمان بنا دیا۔ اب یہ تمام لوگ اپنی اپنی جگہ تبلیغ کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ یہاں پر کئی لوگوں نے دین کی تبلیغ کیلئے زر کثیر دینا شروع کر دیا۔ حضرت صوفی محمد برکت علی لدھیانویؒ ہر کسی کا عطیہ قبول نہیں کرتے تھے اور جو رقم لیتے وہ شام تک خرچ کرکے حساب بے باک کر دیتے تھے۔ انکے دور کے آمد و خرچ کے رجسٹر اس امر کے گواہ ہیں۔ ان رجسٹروں کو ترتیب دینے کا کام میاں محمد شفیع اور نجیب اللہ والانہ کیا کرتے تھے۔ ان دونوں حضرات کو بابا جی سرکارؒ کا خادم خاص ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ تمام لوگ بابا جی سرکارؒ کے مشن کو آگے بڑھانے کیلئے آج بھی سرگرم عمل ہیں۔ بابا جی سرکارؒ کے مرکز طریقت میں ایسے لوگوں نے منزل حاصل کی جن کے ذکر کا یہ کالم متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کے سابق صدر جناب محمد رفیق تارڑ، وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف، سابق وزیراعظم پاکستان ملک معراج خالد (مرحوم)، ملک غلام مصطفی کھر، سابق وفاقی وزیر حفیظ اللہ چیمہ، سابق وفاقی وزیر مولانا کوثر نیازی مرحوم، ڈاکٹر انور سدید (مرحوم)، محترمہ بشری رحمن، اشفاق احمد، ڈاکٹر طاہر القادری، عنایت حسین بھٹی (مرحوم)، مسٹر جسٹس محمد عارف چودھری، جسٹس ریٹائرڈ سردار محمد اقبال (مرحوم) جسٹس سردار محمد ڈوگر، جسٹس محمد صدیق (مرحوم)، دہشتگردی کے کورٹ کے سابقہ جج خواجہ فہیم، سابق چیف جسٹس فیض کریم (مرحوم) بھی شامل ہیں، حضرت بابا جیؒ کے عقیدت مندوں میں شامل ہیں۔ 16 رمضان المبارک بمطابق 5 جنوری 1997ء کو یہ مرد حق آگاہ دنیا سے پردہ کر گیا۔ راقم نے 10 جون کو بابا جیؒ کے مزار اقدس پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی اور راقم کو بہت روحانی سکون ملا۔ لوگ ہر وقت بابا جیؒ کے مزار اقدس پر فاتحہ خوانی و قرآن خوانی اور ذکر الہٰی میں مصروف رہتے ہیں۔ فیض عالم کے یہ سلسلے 24 گھنٹے چلتے رہتے ہیں۔