کالاباغ ڈیم ۔ حقیقت کیا ، فسانہ کیا ؟ (23)

Jun 22, 2016

ظفر محمود

آج جن تصورات کے بارے میں حقیقی صورتِ حال واضح کی جائیگی وہ مندرجہ ذیل ہیں :
کالاباغ ڈیم اتنی بجلی پیدا نہیں کرے گا ، جتنی بجلی پیدا کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ارسا چھوٹے صوبوں کے مسائل پر توجہ نہیں دیتی ، کیونکہ پانی سے متعلقہ فیصلہ سازی کے تمام اداروں میں پنجاب کا غلبہ ہے۔
واپڈا کے اہلکار سندھ کے اہلکاروں کو مختلف بیراجوں اور نگرانی کے مقامات پر دریائے سندھ کے پانی کے بہائو کا جائزہ کی اجازت نہیں دیتے۔کالاباغ ڈیم اتنی بجلی پیدا نہیں کریگا جتنی بجلی پیدا کرنے کا دعو یٰ کیا جاتا ہے۔ کالاباغ ڈیم کے مخالفین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ واپڈا نے اِس ڈیم سے بجلی کی پیداوار کے بارے میں غلط اعداد و شمار ظاہر کئے ہیں ۔ اُنکے خیال کیمطابق واپڈا کی یہ بات درست نہیں کہ اس ڈیم سے ابتدائی طور پر 2 ہزار 400 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔بعد ازاں اس میں اضافہ ہوگا اور بالآخر یہ 3 ہزار 600 میگاواٹ ہوجائے گی۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ درحقیقت اِس منصوبے کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 350 میگاواٹ ہے اور یہ بات ڈاکٹر پیٹر لیفٹنک نے بھی اپنی رپورٹ کی جلد دوئم میں بیان کی ہے۔ اس بات کا بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ڈیم میں درمیانی سطح سے مٹی کے اخراج کا ڈیزائن اور ڈیم کی تعمیر کیلئے غیرموزوں مقام ،بجلی کی اِس کم پیداوار کی وجوہات ہیں۔ مٹی کے اخراج کیلئے غلط ڈیزائن اختیار کرنے کی وجہ سے ڈیم کوہر سال پہلے خالی کرنا پڑے گا اور پھر اِسے بھرا جائے گا۔ جبکہ مٹی نکالنے کے اس لاحاصل عمل کیلئے 4 ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔ کالاباغ ڈیم کے مخالفین ازخود یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں ایسا کرنے کی وجہ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کے دورانیہ میں بھی اسکی پیداوار کم ہوکر ایک ہزار 600 میگاواٹ رہ جائیگی۔ پانی کے بالائی جانب بہنے اور دریائے کابل میں سیلابی کیفیت سے بچائو کیلئے نام نہاد کوشش کے دوران ڈیم کی بلندی 10 فٹ کم کرنے سے بجلی کی پیداوار میں مزید کمی واقع ہوگی اور یہ محض ایک ہزار 350 میگاواٹ کی کم تر سطح تک آ جائیگی۔ریکارڈ کی درستگی کیلئے کالاباغ ڈیم کے پراجیکٹ منیجر اے پی فریزر کے خط کا حوالہ نہایت مناسب رہے گا۔ واپڈا کو پراجیکٹ رپورٹ ارسال کرتے ہوئے انہوں نے مذکورہ خط کے دوسرے پیراگراف میں بیان کیا ہے کہ : ’’ کالاباغ ڈیم ایک بہت بڑا کثیرالمقاصد منصوبہ ہے۔ 2 ہزار 400 میگاواٹ پر مشتمل اسکی ابتدائی پیداواری صلاحیت کے باعث ہر سال 11 ارب 41 کروڑ 30 لاکھ یونٹ اضافی بجلی پیداہوگی ۔ اس منصوبے کی وجہ سے تربیلا کے مقام پر سالانہ 33کروڑ 60لاکھ یونٹ اضافی بجلی بھی حاصل ہو گی جبکہ تربیلا میں ہی بجلی کی انتہائی پیداوار کے اوقات میں 600 میگاواٹ تک بجلی کا اضافہ ہوگا۔‘‘
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے جس تخمینے کا حوالہ دیا جاتا ہے وہ ڈاکٹر پیٹر لیفٹنک نے 1967 ء میں لگایا تھا ۔ اور اس وقت تک ڈیم تعمیر کرنے کیلئے کسی حتمی مقام کا فیصلہ تک نہیں ہوا تھا۔ تب منصوبے کے تفصیلی انجینئرنگ ڈیزائن پر کام بھی شروع نہیں ہوا تھا۔ اُسکے بعد کے دنوں میںٹیکنالوجی میں جو بہتری آئی، اسے بھی بجلی کی کم پیداوار کا دعویٰ کرنے والوں نے غور کے قابل ہی نہیں سمجھا۔
پیٹر لیفٹنک کی مذکورہ رپورٹ 1969ء میں شائع ہوئی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس رپورٹ کے صفحہ نمبر 294 پر کالاباغ ڈیم کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 350 میگاواٹ نہیں بلکہ ایک ہزار 125 میگاواٹ بیان کی گئی ہے۔ بجلی کی پیداوار کا یہ اندازہ ڈیم کی تعمیر کیلئے اس مقام کی بنیاد پر لگایا گیا تھا جس کی اس وقت نشاندہی کی گئی تھی۔کالاباغ ڈیم کا ڈیزائن بین الاقوامی طور پر معروف ماہرین نے تیار کیا ہے۔ آبی ذخیرے میں پانی کی سطح کم کرنے کے اثرات کا جائزہ مٹی کے ساتھ پانی کے اخراج کے تین طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے لیا گیا۔ ان طریقوں میں مٹی کا پانی کے ساتھ معمولی اخراج، درمیانی سطح سے پانی کے ساتھ مٹی کا اخراج اور نچلی سطح سے پانی کے ساتھ مٹی کا اخراج شامل ہیں۔ ان تینوں طریقوں کے تقابلی جائزے سے یہ بات سامنے آئی کہ نچلی سطح سے پانی کے ساتھ مٹی کا ڈیم سے اخراج اقتصادی لحاظ سے نہایت غیرسودمند ہے اور اس سے مٹی کا قابل ذکر اخراج بھی نہیں ہوتا۔ تاہم پانی کے ساتھ مٹی کے معمولی اخراج کے طریقہ کار کی نسبت درمیانی سطح سے پانی کے ساتھ مٹی باہر نکالنے کی صورت میں ڈیم میں قابلِ ذکر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس سے ڈیم میں قابلِ استعمال پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت طویل عرصے تک برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ ایسا کرنے کی بدولت 100 سال گزرنے کے بعد بھی کالاباغ ڈیم میں اسکی ابتدائی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت یعنی 6.1 ملین ایکڑ فٹ کے مقابلے میں 3.2 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت دستیاب رہے گی۔علاوہ ازیں ایسا کرنے سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی کم نہیں ہوگی۔
پانی کی تقسیم کے معاہدے کے تحت انڈس ریور سسٹم اتھارٹی(ارسا) کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تاکہ اس معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس ادارے میں تمام صوبوں کو یکساں نمائندگی حاصل ہے اور تنازعات کو حل کرنے کیلئے ایک طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے ۔ کوئی بھی صوبہ جو ارسا کے فیصلے سے ناخوش ہو ، وہ مشترکہ مفادات کونسل سے رجوع کر سکتا ہے ۔ بالفرض وہ یہ سمجھے کہ اُسے مشترکہ مفادات کونسل سے انصاف نہیں ملے گا، تو معاملہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کو بھجوایا جاسکتا ہے۔ اگر آبی ماہرین کی جانب سے اخباروں کے کالموں، پمفلٹس اور کتابوں میں بیان کی گئی شکایات کا مطالعہ کیا جائے تو ہمیں ارسا کیخلاف ان شکایات کا ایک انبار نظر آئیگا۔اسکے برعکس ریکارڈ سے حیرت انگیز طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ارسا کے قیام کے گذشتہ 24 برس میں کسی بھی صوبہ نے اسکے خلاف مشترکہ مفادات کونسل میں ایک شکایت بھی نہیں بھجوائی۔ ایک اور غلط فہمی جس کا بہت زیادہ چرچا کیا جاتا ہے کہ واپڈا کے اہلکار سندھ کے اہلکاروں کو مختلف بیراجوں اور نگرانی کے مقامات پر دریائے سندھ کے پانی کے بہائو کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں دیتے۔ دُنیا بھر میں دریا کے زیریں علاقوں میں رہنے والے لوگ بالائی علاقوں میں مقیم افراد کے عزائم کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار رہتے ہیں اور یہ بات دریائوں کے زیریں علاقوں میں رہنے والی تمام اقوام ، صوبوں اور علاقوں پر صادق آتی ہے۔ کوئی بھی زمیندار جس کی زمین کسی نہر کے آخری سرے پر واقع ہو، وہ کئی راتیں اس خدشے کے پیشِ نظر جاگ کر گزارتا ہے کہ نہر کے بالائی حصے کے کاشتکار ازخود یا محکمہ آبپاشی کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر اسکے حصے کا پانی چوری نہ کرلیں۔ سندھ میں یہ عمومی تاثر کہ بالائی علاقوں کے لوگ زیریں علاقوں کے حصے کا پانی چوری کرتے ہیں، یہ خدشہ انکے گذشتہ 150 برس کے تجربات سے جُڑا ہوا ہے۔ مشہور مصنف رچرڈ ایف برڈن، جن کی خدمات نبپٹر کی سندھ حکومت نے 1850 ء میں سندھ میں نظام آبپاشی کا مطالعہ کرنے کیلئے حاصل کی تھیں، انہوں نے اس مسئلے پر خاصی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ ان دنوں نہروں پر کٹ لگا کر یا سیلابی نہر کو روک کر پانی چوری کرنا عام بات تھی۔ اس تجربے کی بنیاد پر زیریں علاقوں کے لوگوں میں خوف اور خدشات پر مبنی ایک مخصوص سوچ پروان چڑھ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب برصغیر پر انگریزوں کی حکمرانی تھی اور واپڈا موجود نہیں تھا، سندھ کی درخواست پر ،جو اُن دنوں بمبئی پریزیڈنسی کا حصہ تھا، برطانوی حکومت نے 1929 ء میں سندھ کے اہلکاروں کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ پنجاب میں واقع ہیڈورکس پر دریائوں کے بہائو کی نگرانی کرسکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ٹیکنالوجی میں ترقی کے باعث اب ٹیلی میٹری سسٹم بنایا جاچکا ہے جسکی مدد سے یہ وسوسے اور اندیشے موثر طور پر دور کئے جاسکتے ہیں۔ پاکستان میں ٹیلی میٹری سسٹم 2003 ء سے استعمال ہو رہا ہے اور اسکی مدد سے ملک بھر میں تمام اہم اور مخصوص مقامات پر پانی کے بہائو کا براہِ راست معائنہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ اعداد و شمار ارسا اور محکمہ آبپاشی کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہیں۔ خدشات کی اس دلدل سے باہر نکلنے کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال ہی واحد حل ہے۔ تمام ضروری مقامات پر ٹیلی میٹری نظام کی تنصیب کیلئے فنڈز فراہم کئے جانے چاہئیں اور اس نظام کے ذریعے ان مقامات کی مانیٹرنگ کی سہولت نہ صرف متعلقہ سرکاری محکموں میں موجود ہونی چاہییٔ بلکہ سندھ آبادگار بورڈ، سندھ چیمبرآف ایگری کلچر اور سندھ سمیت ملک بھر میں موجود کاشت کاروں کی تمام تنظیموں کو مانیٹرنگ کے نظام اور اسکے ذریعے حاصل ہونے والے اعداد و شمار تک مکمل اور ہمہ وقتی رسائی دی جانی چاہیے۔

مزیدخبریں