ہمارے سیاست دان اور اظہارِ خیال

Jun 22, 2017

ڈاکٹر تنویر حسین

جب ہم کسی شاعر کا کلام پڑھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ اس شاعر کے ذہن میں ایسا اچھوتا خیال کیسے آیا۔ بعض اشعار ضرب الامثال کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ ہم اپنے بچپن میں جب ریڈیو سنتے تو سمجھتے تھے کہ بولنے والے ریڈیو کے اندر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہم نے کئی بار ریڈیو کو پیچھے سے کھول کر دیکھا تو اس میں کسی بندے یا بندی کی ذات نہیں ہوتی تھی، صرف ٹانکوں اور تاروں کا جال نظر آتا تھا۔ اگر کسی شخص کے ذہن میں اس قسم کے سوالات جنم لیں کہ شاعر کیسے بنتا ہے یا کیسے بنایا جاتا ہے، شاعر مصرع کیسے موزوں کرتے ہیں یا مصرع کوئی کوئی، کبھی کبھی کیسے موزوں کرتے ہیں تو ان سوالات کا جواب ہوگا کہ شاعر بنتا نہیں، پیدا ہوتا ہے۔ یعنی شاعر تلمیذ الرحمن ہوتے ہیں۔ یہ تو شاعروں کا معاملہ ہے، کل ہمارے مہربان ڈاکٹر ندیم رحمن صاحب نے اظہار خیال کے حوالے سے اظہار کرتے ہوئے بتایاکہ ٹی وی اینکرز جب کسی موضوع پر گفتگو کرتے ہیں تو ان کی الفاظ و خیالات کی قدرت و مہارت پر حیرانی ہوتی ہے۔ یہ بھی خداداد صلاحیت ہے وگرنہ کسی موضوع پر دو جملے بولنا محال اور ناممکن ہو جاتا ہے۔ الفاظ و خیالات پر قدرت و مہارت یعنی قادر الکلامی تو کجا، ایک جملہ ڈھنگ سے ادا نہیں ہو پاتا۔ اظہار خیال کے حوالے سے ہمیں اپنی ذات سے وابستہ کچھ باتیں یاد آرہی ہیں۔ ایک دن والدہ صاحبہ نے مجھے سبزی لینے بازار بھیج دیا۔ اس سے قبل میں نے کبھی سبزی فروش سے سبزی نہیں خریدی تھی۔ میں گھر سے نکلتے ہی سوچنے لگا کہ سبزی فروش سے ہم کلام کیسے ہونا ہے۔ ہم نے راہ چلتے سبزی فروشوں اور برقع پوش بیبیوں کے درمیان ہونے والے مکالمات سن رکھے تھے۔ کسی خاتون نے کہا: ’’اے گوبھی بڑی مہنگی لا رہیا ایں‘‘۔ سبزی فروش جلال میں آجاتا اور کہتا: ’’جا بی بی! میرا سِر نہ کھا، جاجا، جتھوں سستی لبھدی اے، اوتھوں لے لے‘‘۔ ہم نے بہت سے دکانداروں کی ایسی باتوں سے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ لوگ بڑبولے پن، بدلحاظی اور طوطا چشمی کے بہت سے زینے طے کئے ہوتے ہیں۔ ہم اپنے ذہن میں سبزی کے حوالے سے مختلف جملوں کی کھچڑی پکاتے دکان پر پہنچ گئے۔ اس دکان پر ہمیں سبزی فروش نٹشے کا فوق البشر دکھائی دیا۔ اس کے اِرد گرد دکھی مخلوق اپنے ہاتھوں میں تھیلے اور پچھیاں پکڑے کھڑی تھی۔ اس سبزی فروش کے منہ سے گاہکوں کے لئے عزت اور احترام کا ایک لفظ بھی نہیں نکل رہا تھا۔ پہلے تو اتنی ساری خواتین کی موجودگی میں میں اس فوق البشر کی صورت ہی نہ دیکھ سکا۔ میں ’’دور بیٹھا غبارِ میرؔ اُن سے‘‘ کے مصداق ذرا دور کھڑا رہا۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ کہنا کیا ہے۔ سبزی طلب کیسے کرنی ہے۔ جب ایک گھنٹہ گزر گیا تو سبزی فروش نے جلالی انداز میں پوچھا: ’’تو کیہ لینا اے‘‘۔ میں نے سبزی کا نام لیا۔ ’’کنی تول دیاں؟‘‘ اب میری جان پر بن گئی۔ اس نے اتنے غصے میں پوچھا تھا کہ میں سہم گیا اور ڈرتے ڈرتے بتایا کہ مجھے یہ تو علم نہیں کہ ہمارے گھر میں کتنی سبزی پکتی ہے، لیکن میں آپ کو افرادِ خانہ کی تعداد بتا دیتا ہوں۔ ہم تین بھائی، تین بہنیں اور والدین ملا کر کل آٹھ بنتے ہیں۔ آپ خود اندازہ لگا لیں کہ کتنی سبزی درکار ہوگی۔ سبزی فروش نے جواب دیا، میں غیب کا علم نہیں جانتا کہ تم لوگ کتنی کتنی سبزی کھاتے ہو۔ میں بھانپ گیا کہ سبزی فروش کا فشارِ خون آسمان سے باتیں کرنے والا ہے۔ میں وہاں سے بھاگ کر گھر پہنچا۔
اظہارِ خیال کے حوالے سے ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ اظہارِ تعزیت کرنا اس کے لئے دنیا کا سب سے مشکل کام ہوتا تھا ۔محلے میں کوئی فوت ہو جاتا یا کسی عزیز یا دوست احباب کا کوئی بزرگ انتقال کر جاتا تو ہمارے دوست کی جان پر بن جاتی۔ ایک دن ہمارے دوست کو کسی نے افسوس کرنے کا طریقہ سکھاتے ہوئے کہا: ’’افسوس تو ایک دریا ہے، تم نے اسے کوزے میں بند کرنا ہے۔ اگر کوئی بیماری میں مبتلا ہوکر فوت ہوا ہے تو تم نے اس کی بیماری کے حوالے سے پوچھنا ہے۔ یہ کوئی فیثا غورث کا مسئلہ نہیں ہے، صرف افسوس والے جملوں میں استعمال ہونے والے لفظوں کو دائیں بائیں کرنا ہے۔ ہمارے دوست نے جب افسوس کرنا سیکھ لیا تو ایک گھر میں افسوس کرنے کے لئے تشریف لے گئے۔ انہوں نے پوچھا آپ کے والد صاحب کیسے فوت ہوئے۔ سب سے بڑے بیٹے نے بتایا کہ اباجان نے رات سوتے وقت ایک کینو کھایا تھا۔ ہمارے دوست نے کہا کہ آپ نے کینو گلے سڑے خرید لئے تھے، دیکھ کر لیتے تو آج آپ کے والد آپ کے سر پر سلامت ہوتے۔ ہم تو بھائی اس تانگے پر نہیں بیٹھتے، جس کا گھوڑا مریل ہو۔ ہمارے دوست نے پھر پوچھا کہ آپ کے ابا جان کے آخری الفاظ کیا تھے۔ اباجان نے کہا تھا: ’’پرسوں نلکے کا بل آیا تھا، میں نے میز کے نچلے دراز میں رکھ دیا تھا، اس کو جمع کرا دینا۔‘‘ ہمارے دوست نے فوراً کہا آپ کے والد صاحب جنتی ہیں۔ ان کی زبان پر نلکے کا نام آیا ہے۔
ہم تو ششدر رہ جاتے ہیں، جب ہمارے سیاست دان کسی موضوع پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ جمہوریت، آمریت یا درمیانیت ہو، دماغ سے ڈھلے ڈھلائے خیالات اترتے چلے آتے ہیں۔ خواجہ آصف صاحب نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک انصاف پیپلز پارٹی میں ضم ہونے جارہی ہے۔ عمران پارٹی کا سرپرست اعلیٰ زرداری صاحب کو بنائیں گے۔ لیگی رہنما دانیال عزیز صاحب نے اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کپتان دو ملکوں کی عدالتوں سے مفرور اور انٹرنیشنل اشتہاری ہیں۔ کپتان کو اپنی زبان پر کنٹرول ہے اور نہ اپنے دماغ پر۔ وزیر مملکت عابد شیرعلی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم میں سے کسی پر الزام ہو تو وہ جے آئی ٹی میں جاتا ہے، عمران خان جس ادارے پر چاہے الزام لگا دے، کیا عمران خان مقدس گائے ہے۔ انہوں نے شاہ محمود قریشی صاحب کو بھی ڈبہ پیر قرار دے ڈالا۔ اظہار خیال ہمارے سیاست دان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں، ان کے دماغ میں مختلف خانے ہوتے ہیں، ہر خانے میں مختلف قسم کا اظہار خیال محفوظ ہوتا ہے۔ اظہار خیال اگر باسی بھی ہو جائے تو ہمارے سیاست دان اسے نئے الفاظ کا تڑکا لگا کر پیش کر دیتے ہیں۔ اپنے اظہار خیال کو نمک مرچ بھی لگا دیتے ہیں۔ اگر مخالف تیز مرچ پسند کرے تو اسے تیز مرچیں لگا دیتے ہیں۔

مزیدخبریں