علامہ حافظ عماد الدین ابوالقدر اسماعیل بن عمر بن کثیرؑ متوفی 774ھ نے اپنی مشہور زمانہ تفسیر میں اوردیگر مفسرین و محدثین میں لکھا ہے کہ رحمت اللعالمین نے یہ سوچ کر کہ پہلی اُمتوںکی عمریں بہت لمبی ہوتی تھیں جس کی بنا پر صالح لوگ بہت زیادہ نیکیاں کما لیتے ہونگے جبکہ میری اُمت کی عمریں ان کے مدمقابل بہت کم ہیں، وہ شب و روز بھی اﷲ کی عبادت میں مصروف رہیں تو پھر بھی یہ سابقہ انبیاءکی امتوں کی برابری نہیں کر سکتے۔ نبی اکرم کی خواہش پر اﷲ عزوجل نے اپنے پیارے حبیب کی امت کےلئے لیلة القدر جیسا تحفہ عطا فرمایا۔
اس مقدس ترین رات کی عبادت کوایک ہزار مہینے سے بھی زیادہ عرصہ تک عبادت کرنے جیسا قرار دیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کا ایک شخص جو ایک ہزار ماہ تک جہاد کرتا رہا اور تمام راتیں اس کی عبادت کرنے میں مصروف گزریں اس کے علاوہ بنی اسرائیل کے چار ایسے عابد و زاہد جنہوں نے 80 سال تک مسلسل خداوند کریم کی عبادت کی تھی اور ان کی زندگی میں آنکھ جھپکنے کے برابر بھی کوئی ایسا لمحہ نہ گزرا تھا جو اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی میں شمار ہو سکے۔ان افراد کا تذکرہ جب رسول پاک نے صحابہ کرامؓ کے سامنے کیا تو وہ حیران ہو کر دریافت کرنے لگے کہ یا رسول اﷲ ہماری تو اتنی عمریں ہی نہیں ہم ان کے رتبہ کو کیسے پا سکیں گے؟ جس پر حضور اقدس نے فرمایا کہ لیلة القدر ایک ہزار ماہ کی عبادت سے بھی افضل و برتر ہے۔ ایک ہزار ماہ 83 سال 4 ماہ کے برابر ہوتے ہیں یعنی جس نے لیلة القدر کو پا لیا گویا اس نے 83 سال4 ماہ تک عبادت کی۔
لیلة القدر کو آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم ہے ۔ اس رات میں ویسے تو ہر طرح سے ذکر و فکر‘ تلاوت و نوافل اور ہر طرح کے وظائف پڑھیں لیکن اس رات ایک مخصوص وظیفہ جسے اماں عائشہؓ نے روایت کیا ہے ”اللھمہ انک عفوا تحب العفو فاعفوعنی“ ترجمہ: ”اے میرے اﷲ! تو درگزر کرنے والا ہے اور درگزر کر دینے کو پسند فرماتا ہے لہذا مجھے بھی معاف فرما دے۔“حضرت امام ابو محمد بن ابو حاتم نے اپنی تفسیر میں حضرت کعبؓ سے روایت نقل کی ہے کہ ”سدرة المنتہیٰ“ جو ساتویں آسمان کی حد پر بالکل جنت کے قریب ہے جو دنیا و آخرت کے فاصلہ پر ہے اور اس کی بلندی جنّت میں ہے۔اس کے اندر اور اردگرد فرشتے ہیں کہ ان کی تعداد سوائے اﷲ عزوجل کے اور کوئی بھی نہیں جانتا۔ اس کی ہر ہر شاخ پر لاتعداد ملائکہ موجود رہتے ہیں اس درخت کے عین وسط میں حضرت جبرائیلؑ کا مقام ہے۔لیلة القدر میں جبرائیلؑ کو آواز دی جاتی ہے کہ اے جبرائیلؑ! اس درخت کے تمام فرشتوں کو ساتھ لےکر آج کی رات زمین پر جا¶‘ یہ تمام کے تمام فرشتے جن کے دلوں میں اﷲ تعالیٰ نے ہر مومن مسلمان کےلئے رحم کے جذبات بھر دئیے ہیں یہ تمام ملائکہ افطاری کے وقت ہی سے تمام روئے زمین پر پھیل جاتے ہیں اور خود بھی ہر ہر جگہ سجدے اور قیام میں مشغول ہو کر تمام عبادت گزار مسلمان مردوں اور عورتوں کےلئے نیک دعائیں مانگتے رہتے ہیں۔
مسلمان ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کا اہتمام کرے تو لیلة القدر کی مٹھاس سے پوری طرح لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ حضرت کعبؓ فرماتے ہیں کو جو شخص اس مقدس رات میں تین مرتبہ ”لاالہ الا اﷲ“ پڑھے تو اس کے پہلی مرتبہ پڑھنے پر ہی بخشش ہو جاتی ہے دوسری بار پڑھنے سے آگ حرام ہو جاتی ہے اور تیسری دفعہ پڑھنے سے جنت میں داخلے کا پروانہ لکھ دیا جاتا ہے۔
حضرت الاسحاق فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم لیلة القدر کافر اور منافق پر اتنی بھاری ہوتی ہے کہ گویا اس کی پیٹھ پر پہاڑ آن گرا ہو بہت سے لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ پوری رات عبادت میں مصروف رہتے ہیں لیکن صبح کی نماز کے وقت نیند سے مغلوب ہو کر سو جاتے ہیں‘ ایسے لوگوں کےلئے سخت وعید ہے۔ خبردار! صبح کی جماعت سے محروم مت رہا کرو۔
لیلة القدر کی مقدس و اطہر رات کے خاتمہ پر جبرائیلؑ سب سے پہلے آسمان کی طرف بہت اوپر جا کر اپنے ”پروں“ کو پھیلا دیتے ہیں بالخصوص ان دو ”سبز پروں“ کو جنہیں اس رات کے علاوہ کبھی بھی نہیں پھیلاتے۔ دنیا سے واپس آسمان پر جانے والے یہ ملائکہ دوسرے آسمان کے بعد بالترتیب ساتویں آسمان پر ”سدرة المنتہیٰ“ میں اپنی اپنی جگہوں پر پہنچ جاتے ہیں اس وقت سدرة المنتہیٰ ان سے دریافت کرتا ہے کہ مجھ میں بسنے والو! میرا بھی تم پر حق ہے میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں جو خدا سے پیار کرتے ہیں ذرا مجھے بھی زمین کے ان خوش بخت لوگوں کے نام بتا کر ان کی حالت زار سے آگاہ کرو۔ یہ فرشتے نام لے لے کر ایک ایک مومن مسلمان کی کیفیت بیان کرتے ہیں کہ کس طرح وہ رکوع و سجود میں مشغول تھا۔ اس کے بعد جنت‘ سدرة المنتہیٰ کی طرف متوجہ ہو کر پوچھتی ہے کہ تجھ میں بسیرا کرنے والے فرشتوں نے جو خبریں تجھے دی ہیں وہ مجھے بھی تو بتا سدرة المنتہیٰ سے تمام احوال سن کر جنت لیلة القدر کی عبادت کرنے والوں کے بارے میں کہتی ہے کہ یا اﷲ! ان تمام نیک بندوں کو مجھ سے جلدی ملا۔
زمین سے واپس آنے کے بعد جبرائیلؑ اپنی جگہ پر سب سے پہلے پہنچتے ہیں اور انہیں ”الہام“ ہوتا ہے تو یہ عرض کرتے ہیں کہ یاپروردگار عالم! میں نے تیرے فلاں فلاں بندے کو رکوع و سجود اور فلاں ‘ فلاں کو ذکر و اذکار میں مصروف دیکھا ہے تو ان کو بخش دے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ ان کی مغفرت کا اعلان فرما دیتے ہیں۔ حضرت جبرائیلؑ یہ خوشخبری عرش کو اُٹھانے والے ملائکہ کو سناتے ہیں یہ سب فرشتے کہتے ہیں کہ فلاں‘ فلاں مرد اور عورت پر خدا کی رحمت و مغفرت ہوئی۔ پھر جبرائیلؑ یہ خبر دیتے ہیں کہ یا الٰہی! فلاں‘ فلاں شخص کو گزشتہ سال زاہد و عابد دیکھا تھا مگر اس بار وہ بدعتوں میں مبتلا تھا اور تیرے احکام سے روگردانی کرتا پھر رہا تھا‘ اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے اے جبرائیل! اگر یہ مرنے سے تین ساعت پہلے بھی توبہ کر لے گا تو میں اسے بخش دوں گا۔اس وقت حضرت جبرائیلؑ پکار اٹھیں گے کہ یاخدایا! سب تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں اور تو اپنی مخلوق پر سب سے زیادہ مہربان ہے بندوں پر تیری مہربانی خود ان کی اپنی مہربانی سے بڑھ کر ہے۔ اس موقع پر عرش عظیم اورآس پاس موجود تمام چیزیں اور تمام آسمان ”جنبش“ میں آجائیں گے اور پکار اٹھیں گے ”الحمد اﷲ‘ الرحیم“
حضرت کعبؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص رمضان المبارک کے تمام روزے رکھے اور یہ نیت بھی کر لے کہ ماہ رمضان کے بعد بھی گناہوں سے بچتا رہے گا اور پانچویں وقت کی نمازوں کی پوری پابندی کرے گا اور پھر وہ اس پر پوری طرح عمل پیرا بھی رہے تو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔