مولانا رومی لکھتے ہیں کہ ایک بار گرامر دان کشتی پر سوار ہوا اور ملاح سے بڑے فخر سے پوچھنے لگا تمہیں گرامر آتی ہے؟ ملاح نے ’’ناں‘‘ میں جواب دیا تو گرامر دان بولا…’’پھر تو تمہاری آدھی زندگی ضائع ہو گئی‘‘…کشتی جب دریا کے گہرے حصے میں پہنچی تو طوفان آ گیا۔ ملاح نے گرامر دان سے پوچھا کہ اُسے تیرنا آتا ہے؟ جواب ناں میں ملا۔ اس پر ملاح نے کہا…’’پھر تو تمہاری ساری زندگی ضائع ہو گئی‘‘…الیکشن قریب آ چکے ہیں اور ابھی تک بہت سارے مسائل حل ہو رہے ہیں اور جن کا حل ہونا ضروری بھی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد قائداعظم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے جو نغمے سامنے آئے تھے ان میں ایک مشہور نغمہ تھا :
ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا مرے بچوں سنبھال کے
اور ہوایوں کہ وہ بچے جنہوں نے بڑے ہو کر ملک کو سنبھالنا تھا وہ کشتی چلانا نہیں جانتے تھے بلکہ ایسے گرامر دان تھے جنہوں نے طوفان میں تیرنا نہیں سیکھا تھا۔ اور جو ملک کے بچوں کی بجائے اپنے اپنے بچوں کا خیال کرنے میں لگے رہے۔ ہمیں گرامر دانوں کی نہیں بلکہ ایسے ملاحوں کی ضرورت تھی کہ جو نوزائیدہ ملک کو اس کے مسائل کے ساتھ آگے کی منزلوں تک لے کر جاتے اور ان مسائل کا حل تلاش کرنے میں وقت ضائع نہ ہوتا جن کو موجودہ صورتحال میں حل کرنا پڑ رہا ہے۔
اور گرم موسم میں آنے والے الیکشن کی گرما گرمی دکھائی نہیں دے رہی۔ احمد ندیم قاسمی کا شعر ہے کہ: …؎
صرف اتنا ہے کہ رستے سے شناسائی نہیں
یوں تو سب کچھ ہے مرے قافلہ سالار کے پاس
اور جو ’’قافلہ سالار‘‘ رہ چکے ہیں ان کے پاس دیکھ لیں کہ کیا کچھ نہیں تھا؟…روائیداد خان نے اپنی کتاب پاکستان انقلاب کے دہانے پر میں حکمرانوں کی احتساب عمل سے بے اعتنائی کے بارے میں جب لکھا تو ایک جگہ لکھا تھا…احتساب کا تجربہ ہمیں کیا سکھاتا ہے؟
’’پہلا سبق یہ ہے کہ اگرچہ آئین کے تحت انتظامیہ کی زیادتیوں اور من مانیوں اور نمائندہ عہدیداروں کے چلن پر کڑی نگاہ رکھنے کی ذمہ داری مملکت کے دو اہم ستونوں صدر اور عدلیہ پر ہے مگر لوگوں کا اعتماد ان پر سے اٹھ گیا ہے‘‘…ہمارے ہاں صدر کا سالانہ بجٹ اور کردار دیکھ لیں مگر اب اس الیکشن سے پہلے عدلیہ نے مضبوط کردار ادا کیا ہے اور خاص طور پر ملک کو دیمک کی طرح چاٹ جانے والی بیماری کرپشن کا علاج شروع کیا ہے اور جس کے نام اٹھانے کا سہراعمران خان کے سر جاتا ہے مگر اس سارے ایکشن میں عدلیہ کو اپنا ’’اعتماد‘‘ بحال رکھنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے ورنہ اس ساری نازک صورتحال میں حالات خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی اگر کرپٹ افراد کو ان کے کیفر کردار تک نہ پہنچایا گیا اور معاملہ ادھورا چھوڑ دیا گیا تب بھی حالات خطرناک حد تک خرابی کی طرف جائیں گے لہٰذا جس کام میں عدلیہ نے ہاتھ ڈالا ہے اس میں اپنا اعتماد بحال رکھنا بھی ضروری ہے اور ساتھ ہی ساتھ میں ملوث افراد کو ان کے کیفر کردار تک پہنچانا بھی از حد ضروری ہے۔ یہاں امریکہ کے کانگریس کے نہایت اہم ممبر کا ذکر ضروری ہے جو ایک ذرائع اور وسائل کمیٹی کا چیئرمین تھا اس پر کچھ الزامات لگے تھے جن میں اپنی رہائش گاہ کی مفت گھاس کٹوانا، اپنی بیٹی کی شادی پر مفت فوٹو گرافی کروانا۔ اپنے دفتر کے حساب سے ٹکٹ خرید کر نقدی میں تبدیل کرنا وغیرہ شامل تھے۔ جب روسٹن کو وسکی عدالت میں اپنی سزا سننے کھڑا ہوا تو امریکی ڈسٹرکٹ جج نورما ہیلو وے نے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا ’’جن ووٹروں نے آپ کو ووٹ دے کر کانگریس بھیجا آپ نے ان سے عہد شکنی کی ہے ان سے دھوکہ کیا ہے۔ ایوان نمائندگان میں آپ کی رکنیت کے زمانے کو ذلت و رسوائی کے دور کے طور پر دیکھا جائے گا اور یاد رکھا جائے گا اور یہ بات آپ کو ہمیشہ ذلت نفس کا احساس دلاتی رہے گی‘‘۔ اس کیس کے بارے میں امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے لکھا تھا… ’’لوگوں کا خیال تھا کہ اوسٹن کو وسکی جیسے مقتدر اور سیاسی اعتبار سے بااثر لیڈر کے لئے یہ نازیبا حرکت سہی لیکن یہ بہت چھوٹی سی بات لگی لیکن جب ان کے مقدمے کا فیصلہ ہوا اور انہیں سزا ملی تو وہ سزا چھوٹی سزا نہ تھی۔ انہیں اپنے عہدے کے ناجائز استعمال پر جیل جانا پڑا۔ گویا اب ہر عہدیدار کے سامنے تنبیہ کی زرد پتی جلا دی گئی ہے‘‘
ہمارے ہاں بدقسمتی سے سزا دینے اور جیل بھیجنے کو ایک اور طرح سے بھی لے لیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کرپٹ لیڈر جیل جانے کے لئے Provoke کرتے رہتے ہیں اور یہ اس لیے کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں جیل جانے والے کو ’’ہیرو‘‘ بنا دیا جاتا ہے اور یہ عوام کی بدقسمتی ہے کہ وہ ایسا کام خود اپنے ہاتھوں سے سرانجام دیتے ہیں۔ تعلیم اور شعور کی کمی کا رونا ماضی میں رو رو کر یہ کہا جاتا رہا ہے کہ عوام اس بنیاد پر غلطیاں کرتے ہیں مگر اب ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ مجرم چاہے سیاستدان یا حکمران ہو اسے جیل میں بھیجا جائے تو وہ ’’ہیرو‘‘ بنا دیا جائے۔ جن ملکوں نے ترقی کی ہے وہاں معاملات کو ان کے انجام تک پہنچایا جاتا ہے ورنہ ایسی باتیں محض ’’پنگہ‘‘ لینے کی حد تک رہ جاتی ہیں اور عدلیہ نے اب جتنے قدم اٹھا لیے ہیں اگر کسی وجہ سے وہ اقدامات بداعتمادی کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر جن کے خلاف ایکشن لیے گئے ان کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاتا تو اس سے بڑی مضحکہ خیز اور خطرناک بات اب ہو نہیں سکتی۔ عدلیہ کو اب تنبیہہ کی زرد بتی جلانی ہو گی اور اس کے ساتھ ہی الیکشن میں عوام کو انتخاب کرتے وقت یہ دیکھنا ہو گا کہ کون پاکستان کی ڈوبتی ہوئی کشتی کا ملاح بن کر اسے معیشت کی بدحالی، اداروں کی تباہی، خشک سالی اور دیگر سنگین معاملات سے باہر نکال سکتا ہے اور وہ …… وہی لوگ ہو سکتے ہیں جنہوں نے صرف اپنے خاندان اور بچے نہیں سنبھالنے بلکہ اس ملک کے بچے سنبھالنے ہیں اور انہیں بہتر مستقبل دینا ہے… الیکشن دو ہزار اٹھارہ انہی معاملات کی وجہ سے ابھی تک گرمی کے موسم میں بھی ’’ٹھنڈ‘‘ کا شکار ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ابھی تک کروڑوں کے پوسٹرز وغیرہ دکھائی نہیں دیئے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کا یہ پہلا الیکشن ہو گا جو کہ ایک سلجھی ہوئی قوم ووٹ ڈال کراہم بنائے گی اور یہ الیکشن ’’ڈھول باجوں‘‘ یا ’’بتاشوں‘‘ کے سر پر نہیں جیتا جا سکے گا۔ بیدل حیدری کا شعر ہے: ؎
سر پہ پگڑی نہیں ہے سر تو ہے
شکر کرتا ہوں میں درباری نہیں