کیسے کیسے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے دور ہوا ہو گئے۔ آج کے بزم خود اربابِ سیاست اور ’’سینئر نما،، اہل صحافت کو ان کے نام تو شاید یاد ہوں، مگر ان کے کام سے یقیناً واقفیت نہیں ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو مگر اس حقیقت سے اغماض ممکن نہیں کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں گزشتہ تین عشروں سے باہمی ’’خوشنودیٔ طبع،، کی ایسی ہوا چل نکلی ہے کہ ان دونوں قومی زندگی کے انتہائی شعبوں میں ہر ایسے شخص کے سر ’’مرکزی،، اور ’’سینئر،، کا تاج سجا دیا حتیٰ کہ ان دونوں کوچوں میں اَن دیکھے ہاتھوں کے پروردہ سیاسی رہرو اور حادثۃً قافلۂ صحافت میں اپنا راستہ بھول کر شریک ہونے اور خود کو ازخود ’’سینئر،، شمار کرانے کی تگ و دو میں اس حد تک آگے ضرور بڑھ گئے کہ سینئر قرار دئیے جانے لگے ۔ دنیائے صحافت میں یہ شرف صرف اور صرف نوائے وقت گروپ آف نیوز پیپرز کے زیر اہتمام شائع ہونے والے اخبارات کو حاصل ہوا کہ ان میں وقت کے ایسے ایسے اربابِ صحافت اپنا مشن جاری رکھے ہوئے تھے کہ جنہیں نہ صرف صحافت کے اسرار و رموز سمیت اس کے آداب تک سے بھی پوری طرح آگاہی حاصل تھی سب سے بڑی خوبی ان کی یہ تھی کہ انہیں اپنے ملک کے حصول کے لیے کی گئی جدوجہد کے محرکات اور حاصل ہونے والے ملک کی تعمیر و ترقی کے تقاضوں کی روشنی میں اہلِ صحافت کے فرائض سے بھی واقفیت تھی۔ بانیٔ نوائے وقت حمید نظامی کی رحلت کے بعد معمار نوائے وقت مجید نظامی جو بلاشبہ رہبرِ صحافت تھے کے خلد آشیانی ہونے تک نوائے وقت میں ایسے ایسے صحافیوں نے تربیت حاصل کی جو آج کے گئے گزرے دور میں امامِ صحافت کہلائے جا سکتے ہیں یہ لوگ بہ زبان خود اس کا دعویٰ نہ بھی کریں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر نے پاکستان کے پہلے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خاں سے لے کر جنرل یحیٰی خان، شہید ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق ، شہید بینظیر بھٹو، میاں نواز شریف، جنرل پرویز مشرف کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے ادوار دیکھے۔ انہیں کور کیا، انہیں بھگتا ہے اور تادمِ تحریر ایک خاموش تماشائی کی حیثیت سے پاکستان کی قسمت سے کھیلنے والے سیاسی رہروئوں سے عبارت سیاستدانوں کی حکومت کو کروٹیں بدلتے ملاحظہ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان رفیقِ سفر اہلِ صحافت کو طویل عمر عطا کرے جنہوں نے متذکرہ ادوار میں وقت کے بڑے سے بڑے جابر حکمران کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان پر الزامات کے حوالے سے دلوں میں ترازو ہونے والے تیز و تند سوالات کی شکل میں ان پر سخت سے سخت الفاظ میں تنقید کے تیر برسائے اور پھر اپنے قلم سے ان کی حکمت عملیوں کے بخیئے ادھیڑتے ہوئے جرأتوں کے چراغ جلائے۔ ایوب خان کی ذاتی وجاہتیں ایک طرف مگر اس کی وفاقی کابینہ میں بھی اپنے دور کے صف اول کے سیاستدان شامل تھے۔ اپوزیشن کے شدید مخالف ، ایوب خان کے ناقابلِ یقین حد تک خوشامدی ایوب خان کی تعریف و توصیف میں ایک دوسرے سے بڑھ کر مدح سرائی کرنے والے مگر اس قدر مہذب، شائستہ اور شرافت و تدبر کے پیکر کہ مجال ہے کہ ایوب خان یا ان کی حکومت کے بارے ان کی چولیں ہلا دینے والے صحافیوں کے سوالات سے کبھی سیخ پا یا شرافت و قناعت کا دامن کبھی ان میں سے کسی ایک کے ہاتھ سے بھی چھوٹا ہو۔ دل تھام کر سنیئے۔ جنرل ایوب خان ملک کے صدارتی انتخاب میں بانیٔ پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ مادرملت فاطمہ جناحؒ کے مدِمقابل تھے۔ نوائے وقت مادر ملت کی انتخابی مہم میں دل و جان کے ساتھ مادر ملت کا ہمنوا تھا۔ ایوب خان نے مجید نظامی (مرحوم) سے ملاقات چاہی اِدھر سے انکار کر دیا۔ چند یوم بعد ایوب خان کے وزیر قانون خورشید احمد بذریعہ ٹرین اسلام آباد سے لاہور آئے، ریلوے سٹیشن نمبر 2 پر اپنے سیلون سے باہر آئے تو اخبار نویسوں نے گھیر لیا تو وقت کے انتہائی قابل ِ صد احترام سینئر ترین صحافیوں کے چبھتے ہوئے سوالات میں اس عاجز نے نوائے وقت کی پالیسی کی روشنی میں پوچھا، جناب، جنرل صاحب کو یقین ہو چکا ہے کہ وہ مادر ملت کے مقابلے میں صدارتی انتخاب ہار چکے ہیں مگر شاید اسی لیے وہ بڑے تیز و تند لہجے میںاپوزیشن اور اس کی امیدوار مادرِ ملت پر برس رہے ہیں۔ وزیر قانون شیخ خورشید نے لمحہ بھر کے توقف کے بعد مسکراتے ہوئے کہا دیکھئے ’’میری نظر میں صدارتی انتخاب ’’خوب،، اور ’’خوب تر،، میں مقابلہ ہے ایوب خان ایسے آمر کے عہد ستم میں ان کا وزیر قانون چاہتا تو اس سوال پر درشت لہجہ بھی استعمال کر سکتا مگر سیاستدان تھا، آداب سیاست سے واقف تھا، شہید ذوالفقار علی بھٹو کا دور ایک قسم کا سیاست و صحافت میں کایا پلٹ قسم کے عہد کا آغاز تھا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا دور حقیقت میں سیاستدانوں کا سیاستدانوں سے مقابلے سے عبارت تھا۔ ان دونوں میں سیاسی اختلافات ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے کی حدوں کو چھو رہے تھے۔ ملک معراج خالد کے بعد گورنر پنجاب ملک غلام مصطفی وزیراعلیٰ پنجاب بنا دئیے گئے۔ ان کے دور میں پنجاب کی کابینہ میں ڈاکٹر عبدالخالق جیسے متحمل مزاج وزیر تھے وہاں ’’اکھڑ مزاج،، سمجھے جانے والے افتخار تاری بھی تھے۔ کچھ پھنے خان مزاج کے پنجاب پیپلز پارٹی کے ارکان صوبائی اسمبلی بھی تھے۔ یہ عاجز ان دنوں پنجاب اسمبلی پریس گیلری کمیٹی کا سیکرٹری تھا۔ صوبائی اسمبلی کے ارکان کے دوران پیپلز پارٹی کے ایک رکن مرزا بیگ نے اسمبلی کی کارروائی کی رپورٹنگ کے لیے آنیوالے پاکستان پریس ایسوسی ایشن کے ایک صحافی کو اسمبلی کے دروازہ سے اندر داخل ہوتے وقت صرف اس لیے دھکا دے کر گرا دیا کہ اُس نے مرزا بیگ کو دیکھ کر پہلے کیوں نہں گزرنے دیا۔ اس معاملے پر پریس گیلری کمیٹی کی طرف سے اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کرنا پڑا۔ (جاری)