میں نے آصف فرخی کے احسایوس کے حوالے سے 2014ء میں ایم فل مکمل کر لیا مگر اس کے بعد بھی گاہے بہ گاہے ڈاکٹر آصف فرخی سے فون پر بات ہوتی رہی کیونکہ میں اپنے مقالے کو کتابی شکل دینا چاہتی تھی اور اُن سے رہنمائی لیتی رہتی ۔بلکہ کتاب میں انٹرویوز کا شامل کرنا خود ڈاکٹر آصف فرخی کا مشورہ تھا کتاب شائع ہونے کے بعد میں نے اُن سے اجازت چاہی کہ میں آپ کے تمام افسانوی مجموعوں کو مرتب کرنا چاہتی ہوں جس پر انہوں نے خوشی کا اظہار کیا۔
2017ء میں جب میں کراچی گئی اور ان سے ملنا چاہا تو انہوں نے کہا بیدل لائبریری آ جاؤ وہاں ملاقات ہو سکتی ہے۔ درحقیقت گھر والے گھر نہیں ہیں اس لئے گھر پر آنے کی دعوت نہیں دے سکتا اور حبیب یونیورسٹی آپ کو بلانا چاہتا تھا مگر گرمیوں کی چھٹیوں میں یونیورسٹی بھی بند تھی اس لئے وہ بیدل لائبریری آئے زبیر صاحب (لائبریرین) نے ہماری خوب آؤ بھگت کی اس روز بھی وہ خندہ پیشانی سے ملے اُن کے چہرے سے پریشانی کے آثار دکھائی دیتے تھے مگر انہوں نے کسی بات کا اـظہار نہ کیا اور میری بھر پور رہنمائی کی۔
اس کے کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر آصف فرخی صحت افزاء مقامات کی سیر کو روانہ ہوئے ان کی صحت اور ازدواجی زندگی کے متعلق مختلف خبریں سننے کو ملتی رہیں مگر میں کبھی جرات نہ کر سکی کہ ان کے اس دکھ کے متعلق ان سے پوچھوں فون پر وہ اسی خوشگوار انداز میں ہی بات کرتے تھے۔
ڈاکٹر آصف فرخی سے میری آخری بالمشافہ ملاقات2019ء میں ہوئی اس بار میں جب کراچی گئی تو انہوں نے مجھے حبیب یونیورسٹی کراچی آنے کی دعوت دی جب میں یونیورسٹی پہنچی تو وہ خود گیٹ تک پہنچے ہوئے تھے اور کہنے لگے پہلے آپ کو کچھ کھلا دوں آپ کو بھوک لگی ہوگی پھر ہم یونیورسٹی کے کیفے ایریا میں آگئے انہوں نے اپنے اور میرے لئے آرڈر خود اٹھایا اور میز پر لائے مجھے شرمندگی بھی محسوس ہوئی مگر اپنائیت کا احساس غالب تھا پھر جو بھی ملنے والا وہاں سے گزرتا خوشی خوشی اس سے میرا تعارف کراتے پھر انہوں نے پوری یونیورسٹی سیمنار رومز، اپنا آفس اور لائبریری دکھائی یونیورسٹی کے ریڈنگ رومز جہاں وہ اپنے طلباء سے خود بھی اشاروں میں بات کرنے لگے اور باہر آ کر بتایا کہ اس ایریا میں آواز کا آنا منع ہے۔ اس دوران انہوں نے بتایا کہ میں بہت پریشانی اور تکلیف سے گزرا ہوں میری بیوی نے مجھے چھوڑ دیا ، میری کتابیں بھی ضبط کر لیں وہ تو میری بیٹی کینیڈا سے آئی اور اس نے لے کر دیں اس عمر میں یہ صدمہ برداشت کرنے کی مجھ میں ہمت نہ تھی میرے وجہ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ چاہتی تھیں کہ میں کراچی چھوڑ کر کینیڈا شفٹ ہو جاؤں مگر میں کراچی اور اپنا حلقہ احباب چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا میں اس حادثے کی وجہ سے بہت پریشان رہا اسی لئے کچھ عرصہ صحت افزاء مقامات پر رہا ۔علاج کرواتا رہا اب کچھ طبعیت بہتر ہے اب میں اپنی والدہ کے گھر ہوں اور میری والدہ مجھے دیکھ کر اور پریشان ہو جاتی ہیں اس بار بھی انہوں نے مجھے چار کتابوں کا تحفہ دیا جن میں ایک کتاب حسن منظر کی "وبا"تھی اور کہا یہ میری پسندیدہ کتاب ہے میں نے انہیں بتایا کہ آپ کے افسانوی مجموعوں کی کتاب تقریبا آخری مراحل میں ہے اور ایک ہزار سے زائد صفحات ہو چکے ہیں تو وہ مسکرائے اور کہنے لگے سنگِ میل والوں سے بات کرنا وہ مجھے بار بار اصرار کر رہے ہیں کہ ایک ہزار صفحات کا ناول لکھ کر دو۔ کراچی سے واپس آنے کے بعد فون پر بات چیت رہی۔
میری آخری بات ان سے22اپریل2020ء کو ہوئی جب میں انہیں بتایا کہ کتاب مکمل ہے اور مجھے اس کے بارے میں کچھ لکھ کر دیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ میری ناصر عباس نیئر صاحب سے بات ہوئی ہے وہ بھی اس کتاب کے لئے کچھ لکھ کر دیں گے وہ یہ سن کر بہت خوش ہوئے میں مجموعوں کے متن کی تصحیح کے لئے وٹس ایپ کے ذریعے ان سے مدد لی انہوں نے فون پر خوش خبری دی کہ رخسانہ! میرے دس افسانے مزید ہو چکے ہیں کرونا وائرس کی وجہ سے جو کچھ دن گھر میں گزارے تو مجھے لگا کہ اب کچھ لکھا جا سکتا ہے میں نے حمید شاہد سے بھی کہا ہے کہ کچھ لکھو۔اب جیسے ہی آفس کھلیں گے تو میں آفس کے کمپیوٹر سے آپ کوPDFفائل میں بھجوا دوں گا پھر مجھے کہا پتہ ہے! اس دفعہ کا دنیازاد"بڑا شاندار رہا اس میں حمید شاہد اور ناصر عباس نیئر کے افسانے بھی ہیں مگر دیکھو ابھی کسی سے ذکر نہ کرنا میں نے بھی بڑی رازداری سے کہا نہیں نہیں سر! میں کسی سے ذکر نہ کروں گی۔
میں نے انہیں کہا ڈاکٹر صاحب آپ کے افسانے پڑھتے پڑھتے مجھ پر اس قدر سحر طاری ہو گیا ہے کہ رات میں خوابوں میں اسی فضا میں گھومتی پھرتی رہتی ہوں یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ آپ میرے گھر بھی آئے ہیں اس پر زور سے ہنسے اور کہنے لگے وعدہ اگر میں ملتان آیا تو آپ کے گھر ضرور آؤں گا ۔اس بات کو ایک ماہ گزر گیا ۔اس دوران میں نے کوشش کی کہ میں ان افسانوں کے متعلق ان سے بات کروں مگر مصروفیت کی وجہ سے ان سے بات نہ کر سکی اور دوسرا کتاب کا کام بھی ابھی نہیں ہو رہا تھا کیونکہ ناصر عباس نیئر صاحب بھی کچھ مصروف تھے اس لئے میں ذرا تسلی میں تھی کہ میں انہیں پریشان نہ کروں مگر زندگی نے انہیں مہلت نہ دی وہ ہماری آنکھوں کو نم کر گئے ۔مگر اُردو کو ایسا اثاثہ عطا کر گئے جو کئی زاویوں سے یاد رکھنے کے قابل ہے وہ صرف ادیب نہ تھا وہ زندگی کا سفیر تھا ،روشنی کا نقیب تھا ،بے ریا جذبوں کا امین تھا وہ ایسافنکار تھا جس کے افسانوں سے پھولوں کی مہک آتی تھی اس کے ہاں "رات کی رانی"اور "خوشبو کے سوداگر"خوشبو بکھیرتے تھے وہ ایک سچا ادیب تھا وہ "یزید کی پیاســ"اور "کوفے کا شہری"لکھنے سے نہیں گھبراتا تھا وہ انسان کی عظمت کا قائل تھا تو شہر کراچی میں آنے والی خون کی بو نے اس سے نوحے لکھوا دیے وہ تہذیب و ثقافت کی جڑ وں سے اپنا رشتہ برقرار رکھے ہوئے تھا اسی لئے آنول نال پر افسانہ لکھ دیا وہ تو ابرنیساں تھا جہاں انسانیت کی فکر اور احساس کے موتی پرورش پاتے تھے وہ" دنیا زاد" دنیا والوں کی آواز بھی تھا اور ان کے دُکھوں کے لئے" شہرِ زاد" بھی۔
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
Jun 22, 2020