شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ افواجِ پاکستان کے جوان قیمتی جانیں دھرتی ماں کی حفاظت کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں۔ یہ وطن حاصل کرنے کے لیے ہمارے بزرگوں نے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اب ہمارے جوان اس ملک کی حفاظت کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ اللہ اس ملک کو تاقیامت قائم و دائم رکھے اور ہم سب کو ملک کی حفاظت اور اس کی ترقی میں کردار ادا کرنے کی توفیق عطائ فرمائے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق دہشتگردوں نے شمالی اور جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقے گیروم کے قریب سیکیورٹی فورسز کی پیٹرولنگ پارٹی پر فائرنگ سے کیپٹن صبیح اورسپاہی نوید شہید جب کہ دو اہلکار زخمی بھی ہوئے۔فائرنگ کے تبادلے میں ایک دہشتگرد بھی ہلاک ہوا جبکہ ملک دشمنوں کی پناہ گاہوں کا بھی خاتمہ بھی کر دیا گیا ہے۔
وزارت خزانہ کو تباہ کرنے کے بعد اب اسد عمر کرونا سے نمٹنے کی کوششوں میں ملک کو مزید تباہی کی طرف دھکیلنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا تکبرانہ رویہ اور خود کو عقل کل سمجھنا مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ اہم میٹنگز میں وہ معزز اراکین کے ساتھ جس انداز میں بات کرتے ہیں اس سے ناصرف اچھے بھلے افراد کی عزت نفس تباہ ہو رہی ہے بلکہ ایسے برے ماحول میں ڈاکٹر فیصل سلطان جیسے معتبر، قابل اور کامیاب منتظم بھی مسائل سے دوچار ہیں۔ اسد عمر جب اس شعبے کے ماہرین کو نظر انداز کرتے ہوئے سولو فلائٹ کے چکروں میں ہیں تو اہم مسائل پر اتفاق رائے پیدا ہونا تو دور کی بات ہے تعمیری کام بھی ممکن نہیں ہے۔ ڈاکٹر فیصل سلطان کی خاموشی سے بھی سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ خموش کیوں ہین کیونکہ ڈاکٹر فیصل سلطان تو میرٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ ڈاکٹر ظفر مرزا کا بھی یہی حال ہے۔ وہ بھی تنگ ہیں بلکہ اسد عمر کے ساتھ کام کرنے والے اکثر و بیشتر افراد ان کے غیر ضروری جارحانہ رویے سے نالاں ہیں۔ ہمیں ڈاکٹر فیصل سلطان اور ڈاکٹر ظفر مرزا سے ہمدردی ہے کیونکہ وہ جب بھی کوئی دلیل پیش کرتے ہیں تو انہیں اس عمر کے سخت اور میں نہ مانوں رویے کی وجہ سے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ صورت انتہائی افسوسناک ہے۔ اسد عمر کو جس شعبے کا ماہر کہا یا سمجھا جاتا تھا وہ اس کا تو بیڑہ غرق کر چکے ہیں اب مستند ڈاکٹرز کی رائے کو بھی انہوں نے نظر انداز کرنا ہے تو پھر قوم کے بہتر مستقبل کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ ہمارا کام ہے کہ وزیراعظم تک حقائق پہنچائیں جائیں اب فیصلہ کرنا ان کا کام ہے۔
جامعہ بنوریہ کراچی کے مہتمم مفتی محمد نعیم کے انتقال پر بہت دکھ ہوا ہے۔ ملک ایک بلند پایہ عالم دین سے محروم ہوا ہے۔ وہ دین کی خدمت میں مصروف تھے۔ اسلام کی سربلندی کے لیے کام کرنے کی وجہ سے ہمیشہ انہیں اچھے الفاظ میں یاد کیا جائے گا۔ وہ تحمل مزاجی اور دلائل کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔ ہمیں اپنے علمائ کی قدر کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے۔
ایک ایک کر کے ایم کیو ایم کے سیاست دانوں کے راز کھل رہے ہیں۔ سب جان جائیں گے کہ جو لوگ الطاف حسین کی پاکستان میں تقاریر پر پابندی کو آزادی اظہار پر حملہ قرار دے رہے تھے اب انہیں سمجھ آ جانی چاہیے کہ الطاف حسین ہر پابندی درست تھی۔ اس جماعت کے سابق رہنما محمد انور نے کہا کہ ندیم نصرت نے بھارتی سفارت کار سے میری ملاقات کرائی، بھارتی سفارت کار سے پارٹی کے حکم پر وسطی لندن میں ملاقات کی تھی۔ بھارت سے پیسے لینے کی بات حقیقت ہے۔ بھارتی حکومت سے پیسے لے کر ہمیشہ پارٹی قیادت کو دیے۔ ڈاکٹر عشرت العباد کو بھی ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات میں شامل کرنا چاہیے۔ اس اعتراف کے بعد پاکستان کی تمام سیسی جماعتوں کے رہنماؤں کو پنی پالیسی پر نظر ثانی ضرور کرنی چاہیے جو ماضی میں الطاف حسین کے دکھ میں بیانات جاری کرتے تھے۔ محمد انور کے بیانات کے بعد اعلی سطح کا تحقیقاتی کمشن قائم کیا جانا چاہیے۔ ایم کیو ایم کے موجودہ دھڑے سے بھی مکمل تفتیش کی جانی چاہیے تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ اس وقت بھی کون کون پاکستان کے دشمنسں کے ساتھ رابطے میں ہے اور ملکی مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے۔ گناہ کا اعتراف کرنے سے جرم کی حیثیت ختم نہیں ہو جاتی البتہ نرم رویہ رکھنے سے سزا میں کمی ضرور ہو جاتی ہے۔ ایم کیو ایم کے ایسے تمام اراکین جو قتل و غارتگری، لوٹ مار، اغوا برائے تاوان، چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں شامل رہے ہیں اور جو جو پشت پناہی کرتے رہے ہیں ان سب کو قانون کے مطابق سزا دینی چاہیے۔ مصطفیٰ کمال خود کو پارسا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی اس غداری اور ملک دشمنی میں اتنے ہی شامل ہیں جتنا کہ الطاف حسین۔ وہ ہر منفی کام میں برابر کے حصے دار ہیں۔ اب اگر وہ خود کو سب جرائم سے بری الذمہ سمجھتے ہیں تو یہ حقائق کے منافی ہے۔ الطاف حسین سے علیحدگی کر کے انہوں نے کوئی بغاوت نہیں کی بلکہ انہوں نے سیاسی طور پر بہتر فیصلہ کیا کیونکہ وہ جلد پڑھ گئے اور راستے الگ کر لیے۔ ان کے حالیہ بیانات اور اقدامات صرف اور صرف عوام کو دھوکہ دینے کے لیے ہیں۔ پی ٹی ایم پر اگر سختی ہوتی ہے تو سیاست دانوں کو برا لگتا ہے۔ ان سب کے بارے ریاستی اداروں کے ہاا ٹھوس ثبوت اور شواہد ہیں لیکن سیاست دان صرف وقتی فائدے کے لیے ایسے عناصر کی حمایت کرتے ہیں اس کا نقصان ملک کو ہوتا ہے۔ حقیقت میں یہ لوگ ملک دشمن ہیں اور پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ ان کے بارے کوئی نرمی نہیں رکھنی چاہیے۔
اختر مینگل کو اپوزیشن میں جانے کے خواب آ رہے ہیں یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے وہ جہاں جانا چاہیں جا سکتے ہیں اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے ملکی ترقی میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں تق انہیں ضرور حزب اختلاف کے بنچوں پر بیٹھ جانا چاہیے لیکن یہ یاد رکھیں کہ اپوزیشن تو پہلے ہی گمشدہ ہو چکی ہے۔ ایک خود ساختہ باغی اور انقلابی لیڈر ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں، ایک علیل ہیں اور ایک ایسے ہیں جو ہفتے میں ایک مرتبہ پریس ریلیز جاری کرتے ہیں اور پھر چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ ایسی کمزور اپوزیشن ہے جس میں عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کی بھی ہمت نہیں ہے۔ نہ ان کے پاس اعدادوشمار ہیں نہ ان میں اتنی جرات ہے کہ عوام کے لیے آواز بلند کر سکیں۔ ہر دوسرے شخص پر اتنے الزامات ہیں کہ وہ ان کے دفاع میں ہی پھنسا رہتا ہے۔ یوں عوام کے لیے بولنے والا کوئی نہیں ہے۔ عوام کی بدقسمتی ہے کہ اسے نہ حقیقی حکومت ملتی ہے اور نہ ہی حقیقی اپوزیشن میسر آتی ہے۔ کبھی حکومت مصلحت کا شکار ہوتی ہے تو کبھی حزب اختلاف مصلحتوں کا شکار نظر آتی ہے۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے کمپنیز ایکٹ میں ترامیم پر ایک خط کے ذریعے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان، قومی احتساب بیورو سے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اب یہ خبر بھی نہایت دلچسپ ہے۔ یہاں تو اصل میں قوم کو شفافیت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یہاں چوبیس گھنٹے جھوٹ بولا جاتا ہے۔ ملاوٹ عروج پر رہتی ہے۔ دودھ میں پانی، برف اور نجانے کون کون سے کیمیکلز ملائے جاتے ہیں، سرخ مرچ میں رنگ شامل کر دیا جاتا ہے، پلازمے بیچے جاتے ہیں، جان بچانے والی ادویات مہنگی اور پھر مارکیٹ سے غائب کر دی جاتی ہیں، من غش فلیس منا لکھ کر دبا کر ملاوٹ کی جاتی ہے۔ قیمت پوری لی جاتی ہے چیز غیر معیاری دی جاتی ہے۔ اس تکلیف دہ حقیقت کے بعد تو پوری قوم کی ٹرانسپرنسی ہی مشکوک ہے۔ جہاں قوم شفاف نہ ہو وہاں ادارے اور قوانین کیاے شفاف ہو سکتے ہیں۔