چین میں شکست کھانے کے بعد کورونا وائرس نے پاکستان سمیت دنیا کے جن 203 ممالک کواپنی لپیٹ میں لیاتھا ان میں سے نیوزی لینڈ اور تنزانیہ سمیت 9 ممالک اس وائرس سے مکمل نجات حاصل کرچکے ہیں اور بہت سارے ممالک اس سے نجات حاصل کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں ۔ا سکے برعکس پاکستان کا شمار کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے خطرناک ممالک کی فہرست میں آتا جا رہاہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ حکومت اگر عبادات کے ساتھ ساتھ زندگی کے دیگر شعبوں کے لئے بھی احتیاطی تدابیر پر مشتمل رہنما اصول جاری کر دیتی اور 26 فروری کو کرونا کا پہلا کیس سامنے آنے پر خطرے کا ادراک کرکے عالمی وبا کو عام نوعیت کا نزلہ زکام سمجھ کر نظر انداز نہ کرتی تو اب تک3382 سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے اور نہ ہی 171666 افراد کرونا وائرس میں مبتلا ہو تے۔ حقیقی مریضوں کی تعداد کیاہے اس بارے کسی کو کچھ معلوم نہیں صرف سرکاری طور پر بتا?گئے مریضوں کی تعداد پر اکتفا کیا جارہا ہے۔ اس تعداد کو ہی درست مان لیاجا تو پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد چین سے بڑھ گئی ہے ۔ عوامی جمہوریہ چین نیووہان شہر میں 76 دن تک لگاتار مکمل لاک ڈاؤن کرکے ہی اپنے بین الاقوامی حیثیت کے شہر کو کرونا وائرس سے پاک کیا تھا۔اس وقت دنیا کے تمام متاثرہ ممالک چینی نسخے پر عمل کرکے کرونا وائرس سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم عمران خان پہلے دن سے لاک ڈاؤن کے خلاف تھے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مکمل لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر یومیہ اجرت پانے والا مزدور طبقہ ہوگا۔ وزیراعظم کی مزدور طبقے کیلئے فکر مندی اپنی جگہ۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ 26 فروری سے اب تک پورے ملک میں طبعی اور حادثاتی کے علاوہ جتنے بھی لوگ جان سے گئے ہیں۔ان میں سے کوئی ایک شخص بھی بھوک سے نہیں مرا بلکہ تمام اموات کورونا وائرس کے باعث ہو رہی ہیں۔حکومت اگر عوام کو فی الواقعہ کورونا وائرس سے نجات دلانا چاہتی ہے تو پھر اسے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈ روس کے انتباہ اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کی دردمندانہ اپیلوں پر کان دھرنا ہونگے۔ ہفتے میں دو دن لاک ڈاؤن کو سعی لاحاصل ہی کہا جائیگا۔ کورونا وائرس تاریخ کی خوفناک ترین وباء ہے۔ جسکا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ خود کو محدود کرکے ہی اس سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ شہریوںکی اکثریت یہ جانتے بوجھتے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرکے اس وبا پر قابو پایا جاسکتا ہے۔اسکے باوجود ملک کے طول و ارض میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد اور اموات میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے جس کا سیدھا سادھا مطلب یہ ہے کہ آزمائش کی اس گھڑی سے عہدہ بر آ ہونے کے لئے قومی سطح پر جس سنجیدگی اور احتیاط کی ضرورت تھی۔ہم اس کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ بے احتیاطی کا مظاہرہ کرنے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جن ممالک میں یہ وباء اپنی انتہا کو چھو رہی ہے ان کے شہری بھی باہمی میل جول میں کمی پر آمادہ نہیں تھے۔آج وہ اپنے پیاروں کو مرتے دیکھ کر کف افسوس مل رہے ہیں۔ ہماری انفرادی اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ بعض اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اس وبائ کو امریکی سازش قرار دے کر احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے والوں کا تمسخر اڑاتے ہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ ان دنوں سوشل میڈیا پر ہسپتالوں کے حوالے سے عوام الناس کو جو دکھایا اور بتایا جا رہا ہے۔یہ صورت حال آئندہ دنوں کی انتہائی خوفناک تصویر پیش کرتی ہے۔ جسکے ذریعے کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر حصہ لینے والے ڈاکٹروں کواجرتی قاتلوں کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ اس زہر آلود پراپیگنڈا نے لوگوں کے دلوں میں ایسا خوف پیدا کردیا ہے کہ بعض لوگ کورونا کی علامات ظاہر ہونے کے باوجود ہسپتالوں کا رخ کرنے کی بجائے ٹوٹکے آزما رہیہیں۔ حکومت اس صورتحال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے لوگوں کا اعتماد بحال کر ے بصورت دیگر حالات حکومت کے قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ تحصیل غازی جہاں کچھ عرصہ پہلے تک کورونا کا کوئی ایک مریض نہیں تھا ۔ان سطور کے لکھے جانے تک یہاں تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد 24 تھی۔ ان میں سے چودہ مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔ جبکہ ایک مر یض چل بسا ہے۔ یاد رہے کہ متاثرہ افراد میں تحصیل غازی کے پانچ ڈاکٹرز بھی شامل تھے۔ ان سب کی رپورٹس منفی آچکی ہیں۔غازی میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمے دار اسسٹنٹ کمشنر غازی عدنان ابرار کو قرار دینے والوں سے تعرض نہیں ۔ وہ چاہیں تو انہیں پورے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمے دار ٹھہرا سکتے ہیں۔ یہ جملہ معترضہ تھا جو درمیان میں آگیا۔ بات مقصود ہے واپڈا ہسپتال تربیلا ڈیم کی۔ جس کے ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ہسپتال مذکورہ کے سینئر میڈیکل آفیسر ڈاکٹر راشدخلیل، چائلڈ سپشلسٹ ڈاکٹر روشن خان اور ایکسیئن سول ڈویڑن ll چودھری محمد لقمان سمیت دس واپڈا ملازمین میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے۔اسکے علاؤہ ایک خاتون ٹیچر سمیت پانچ واپڈا ملازمین جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اسی ہسپتال کا ایک سابق ملازم کورونا ٹیسٹ کروانے سے انکاری ہے جسے اس کے حال پر چھوڑ دیا گیاہے۔ان سطور میں تربیلا ڈیم پراجیکٹ کی کالونیوں کی صفائی ستھرائی کی حالت زارکا ذکر نہ کرنا سراسر نا انصافی ہوگی جہاں اب بھی جابجا کوڑے کرکٹ کیڈھیر مکھیوں اور مچھروں کی افزائش کا باعث بن رہے ہیں۔اور ان سے اٹھنے والا تعفن کالونیوں کے مکینوں کے لئے سوہان روح بن رہاہے۔ صفائی ستھرائی سے متعلقہ عملے کی حالت زار پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ غلاظت سے بھرے ہوئے مین ہولزکی صفائی کرنے والے سیور مینوں اور سینی ٹیشن سے متعلق دوسرے عملے کے پاس یونیفارم، ڈانگریاں، حفاظتی ٹوپیاں، ماسک اور ہینڈ سنیٹائزر تو کجا اسکے پاس ہاتھ صاف کرنے کے لئے کپڑے کے پیس اور صابن تک نہیں دیا جاتا۔ سول ڈویڑن l کے چھ سینٹری ورکرز کے پاس لانگ بوٹ کا صرف ایک جوڑا ہے۔ دو ماہ قبل انتہائی فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہاتھوں کی حفاظت کے لئے بالوں کو کلر کرتے وقت استعمال کئے جانے والے دستانے (Hair dying gloves) عنایت کردیے گئے۔ مین ہولز میں اترنے کیلئے سیڑھی غلاظت نکالنے کے لئے بالٹی اور رسی تک فراہم نہیں کی گئی۔ سول ڈویڑن l اور سول ڈویڑن ll کے عملے سے صوبے کی انتہائی کم آمدن والی میونسپل کمیٹی غازی کے سینٹری ورکرز کی حالت بدرجہا بہتر ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وطن عزیز کے ان باسیوں کے ساتھ یہ ظالمانہ سلوک کب تک جاری رہیگا؟
کورونا وائرس جس نے 203 ممالک میں خونیں پنجے گاڑھ لئے
Jun 22, 2020