اسلام آباد (وقائع نگار) ایوان بالا کے اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں نے پشتون خواہ ملی پارٹی (میپ) کے رہنما و سابق سنیٹرعثمان خان کاکڑ کی موت پر ان کی فیملی کی جانب سے شکوک و شبہات کے اظہار کے بعد ایوان سے معاملے کی انکوائری کے لیے کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پیر کے روز ایوان بالا کا اجلاس چیئرمین سینٹ کی زیر صدارت منعقد ہوا تو ایوان میں پی کے میپ کے مرکزی رہنما و سابق سینیٹر عثمان خان کاکڑ کی وفات کے حوالے سے فاتحہ خوانی کروائی گئی۔ ایوان کی کارروائی شروع ہوئی تو جمعیت علمائے السلام کے سینیٹر کامران مرتضی نے کہا عثمان خان کاکڑ کی موت پر ان کے خاندان کی جانب سے بتایا گیا کہ عثمان خان طبعی موت نہیں مرے۔ ان کی اچانک موت سر پر لگنے والی چوٹ کے باعث ہوئی ہے جس پر شکوک و شبہات پائے جارہے ہیں۔ انہوں نے ایوان سے مطالبہ کیا کہ ایوان معاملے کی انکوائری کے لیے اپنی کمیٹی بنائے اور ان کا پوسٹ مارٹم کروایا جائے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے بھی ان کی تائید کی کہ ان سے بھی عثمان خان کاکڑ کے بیٹے نے بات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عثمان خان کی موت کی تحقیق ہونی چاہیے۔ حکومتی رکن سینیٹر ولید اقبال نے ایوان کو پیشکش کی کہ ان کی انسانی حقوق کی کمیٹی اس معاملے کی تحقیق کرنے کو تیار ہے۔ حکومتی رکن سینیٹر سیمی ایزدی نے کہا کہ عثمان خان کاکڑ کی موت جن حالات میں ہوئی اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ عثمان خان اصولوں پر کاربند جمہوریت کی اعلی اقدار پر قائم رہنے والے جمہور کی آواز تھے۔ سینیٹر کامران مائیکل نے کہا وہ دلیر نڈر اور دبنگ پارلیمنٹرین تھے۔ سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ وہ پارلیمان میں حقیقی جمہور کی مضبوط و توانا آواز تھے۔ نواب زادہ عمر فاروق، سینیٹر حافظ عبدالکریم، سینیٹر رانا مقبول، سینیٹر دلاور خان، سینیٹر سید مظفر شاہ، سینیٹر محسن عزیز، سینیٹر نصیب اللہ، سینیٹر کہدہ بابر، سینیٹر عطاء الرحمان، سینیٹر بہرہ مند خان تنگی، سینیٹر اعظم خان سواتی، سینیٹر مشتاق احمد، سینیٹر طاہر بزنجو، سینیٹر منظور کاکڑ، سینیٹر محمد اکرم، سینیٹر فدا خان، سینیٹر مولانا فیض محمد، سینیٹر کیشو بائی، سنیٹر ثنائ، سینیٹر پیر صابر شاہ اور دیگر نے بھی عثمان خان کاکڑ کی وفات پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ان کی زندگی کے مثبت پہلووں پر روشنی ڈالی۔ سینٹ نے عثمان کاکڑ کے انتقال پر تعزیتی قرارداد منظور کر لی۔ تعزیتی قرارداد یوسف رضا گیلانی نے ایوان میں پیش کی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایوان عثمان کاکڑ کے انتقال پر دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہے۔ عثمان کاکڑ کی پارلیمنٹ اور جمہوریت کی بالادستی کیلئے خدمات یاد رہیں گی۔ علاوہ ازیں سینٹ نے گھریلو تشدد کی ضمانت اور تحفظ کا بل ترامیم کے ساتھ منظور کر لیا۔ جماعت اسلامی کے مشتاق احمد نے گھریلو تشدد کی ممانعت اور تحفظ کے بل کی مخالفت کی۔ بل میں ترامیم قائمہ کمیٹی اور سینیٹر رضا ربانی کی جانب سے پیش کی گئیں۔ بل وزیر انسانی حقوق شیریں نے ایوان میں پیش کیا۔ بل خواتین‘ بچوں‘ بزرگوں‘ کمزور افراد کے خلاف گھریلو تشدد کی ممانعت اور تحفظ سے متعلق ہے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ گھریلو تشدد سے مراد جسمانی‘ جذباتی‘ نفسیاتی‘ جنسی اور معاشی بدسلوکی ہے۔ گھریلو جرائم کی سزا تین سال تک قید اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہے۔ جرمانہ ادا نہ کرنے پر مزید تین سال سزا ہو گی۔ عدالت میں درخواست آنے کے سات روز کے اندر سماعت ہو گی اور فیصلہ 9 روز میں ہوگا۔ بزرگ شہریوں کا بل 2021ء پیش کرنے پر اپوزیشن نے سینٹ اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ رضا ربانی نے کہا کہ بل مزید غور کیلئے متعلقہ کمیٹی کو بھیجا جائے۔