امریکی کوہ پیما کا مائونٹ ایورسٹ پر پرچم لہرا کر علی سدپارہ کو خراج عقیدت
مرحوم پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ پاکستان کا نام روشن کرنے والا وہ درخشاں ستارہ تھا جو آج ہم میں موجود نہیں مگر اس کی یاد کوہ پیمائی کے شوقین ہزاروں نوجوانوں کے جذبات کو مہمیز کرتی رہے گی اور پاکستانیوں کو اپنے اس ہیرو پر سدا فخر رہے گا۔ علی سدپارہ کوہ پیمائی کی ایک مہم کے دوران اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تو ان کے چاہنے والے آج تک انہیں یاد کرتے ہیں۔ علی ظفر نے ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے …؎
ہم تمہاری راہ دیکھیں گے صنم
تم چلے آئو پہاڑں کی قسم
والا نغمہ گا کر دلوں کو تڑپا دیا۔ وہ عالمی سطح پر جانے جانے والے کوہ پیما تھے۔ انہوں نے آکسیجن کے بغیر موسم سرما میں 8 ہزار فٹ بلند نانگا پربت سر کر کے ایک ریکارڈ قائم کیا۔ وہ ایک محنت کش تھے۔ انہوں نے اپنی ذاتی محنت کی بدولت دنیا کی چودہ بلند ترین چوٹیوں میں سے 8 سر کیں۔ اگر زندگی مہلت دیتی تو وہ باقی بھی سر کر لیتے۔ اب جس امریکی کوہ پیما نے مائونٹ ایورسٹ کی چوٹی سر کی ہے اس نے اس عظیم پاکستانی کوہ پیما کی یاد میں وہاں پاکستانی پرچم لہرا کر علی سدپارہ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے جو ہم سب کیلئے خوشی اور فخر کا باعث ہے۔ حکومت بھی کوہ پیمائی کے فروغ کیلئے علی سدپارہ کے نام پر کوہ پیمائی سکھانے والے کلب بنائے جو نوجوانوں کو کوہ پیمائی کی طرف راغب کرنے کے علاوہ ان کو تربیت بھی فراہم کرے تاکہ اس میدان میں نیا ٹیلنٹ سامنے آئے جو علی سدپارہ کی طرح ملک کا نام روشن کرے۔
٭٭٭٭٭
پی ڈی ایم 29 جولائی کو کواچی میں جلسہ کرے گی: مولانا فضل الرحمن
خدا جانے یہ باسی کڑی میں اُبال ہے یا ہمت مردانہ کا بھرپور اظہار کہ اپوزیشن والے بار بار ناکامی کے باوجود حکومت کے خلاف متحرک ہونے سے باز نہیں آتے۔ لانگ مارچ ہو یا احتجاجی تحریک ہڑتال ہو یا دھرنا اتنی بار ان کی ریہرسل کی جا چکی ہے کہ اب شاید عوام کو بھی اس میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ رہی بات حکومت کی تو وہ پہلے ہی ’’یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں‘‘ کہہ کر اپوزیشن کی طرف سے آنکھیں موند لیتی ہے۔ اس میں سراسر قصور اپوزیشن والوں کا ہی لگتا ہے۔ ہر جماعت نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ بنا رکھی تھی۔ پیپلز پارٹی نے تو کھل کر اب اے این پی کے ساتھ مل کر اپوزیشن اتحاد کو چھوڑ دیا ہے۔ یوں اب اس اتحاد کا بوجھ مولانا فضل الرحمن ، شہباز شریف اور اچکزئی کے کاندھوں پر ہے جو یہ تابوت اٹھائے کبھی کسی گلی تو کبھی کسی ڈگر پر رواں نظر آتے ہیں۔ جولائی اگست میں پاکستان میں مون سون (ساون بھادوں) کا سیزن زوروں پر ہوتا ہے۔ اس موسم میں حبس بارش اور گرمی کا سہ رکنی اتحاد لوگوں کو بوکھلا کر رکھ دیتا ہے۔ اب اس موسم میں مولانا فضل الرحمن نے 4 جولائی کو سوات اور 29 جولائی کو کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسوں کا شیڈول جاری کیا ہے۔ یہ تو جلسے نہ کرنے والی بات ہے۔ سوات میں تو چلیں موسم سہانا ہوتا ہے۔ لوگ جوق در جوق مولانا ، شہباز اور اچکزئی کو سننے کے لیے آ جائیں گے مگر یہ کراچی میں اس خراب موسم میں اگر طوفانی بارش ہوئی تو کیا ہو گا۔ کیا پتہ حکومت خود سازش کر کے بارش برسا دے۔ محکمہ موسمیات اور سائنس و ٹیکنالوجی حکومت کے ہی ہاتھ میں ہے۔ مصنوعی بارش ہو سکتی ہے۔ دیکھتے ہیں اب بجٹ کے حوالے سے اپوزیشن عوام کو بیدار کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔
٭٭٭٭٭
وزیر اعلیٰ بلوچستان کا سپیکر بدلنے کا فیصلہ ، 17 اپوزیشن ارکان کیخلاف مقدمہ
بلوچستان اسمبلی کے سپیکر اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے درمیان بجٹ اجلاس سے قبل کی ہنگامہ آرائی ایک تلخ موسم کی طرح انکے تعلقات خراب کر رہی ہے۔اتحادی ٹولے کی حکومت کو اس طرح کے مسائل سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ بلوچستان اسمبلی کے باہر چند روز قبل بجٹ اجلاس کے موقع پر جو کچھ ہوا ، وہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک افسوسناک واقعہ ہے۔ پولیس کے ظالمانہ آپریشن اور اسمبلی کے احاطے میں حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان جنگ نے صوبہ بلوچستان کی سیاسی افراتفری میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ اب اس صورتحال میں وزیر اعلیٰ کی طرف سے سپیکر اسمبلی کو ہٹانے کی مشاورت ’’گرا گدھی سے اور غصہ کمہار‘‘ پر نکالنے والی بات ہے۔ بھلا کیا سپیکر صوبائی اسمبلی نے یہ ہنگامہ آرائی کرائی تھی۔ اپوزیشن بھی سپیکر پر ہی الزام لگا رہی ہے ، حالانکہ ان کا کام اسمبلی ہال کے اندر کی ذمہ داری نبھانا ہے باہر جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کیلئے ذمہ دار نہیں۔ دراصل غصہ جام کمال کو یہ ہے کہ ان پر جوتے اور گملے پھینکے گئے ۔ ان میں سے شاید کوئی ایک ہدف پر جا لگا ہو۔ اب حکومت نے اپوزیشن کے 17 ارکان کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا ہے مگر اپوزیشن کی درخواست پر مقدمہ درج نہیں ہو رہا۔ اس پر سپیکر نے بھی آئی جی بلوچستان ف واقعہ کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ لگتا ہے بلوچستان میں سیاسی افراتفری کی راہ ہموار کی جا رہی ہے ، جس کا صوبہ متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس وقت امن و امان اور دہشت گردی کے حوالے سے بلوچستان میں سب اچھا نہیں۔ اب سیاسی چپقلش اس بگڑتی ہوئی صورتحال کو مزید خراب کر دیگی اس لیے حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں احتیاط سے کام لیں ۔
٭٭٭٭٭
بھارت کی کشمیری سیاسی جماعتوں کو دہلی اے پی سی میں شرکت کی دعوت
بھارت کی انتہا پسند مودی سرکار کو شاید اب احساس ہو گیا ہے کہ اس نے کشمیر کیآئینی حیثیت سے چھیڑ چھاڑ کر کے جو پنگا لیا تھا وہ اب دنگے میں تبدیل ہو گیا ہے۔ دو سال ہونے کو ہیں مگر کشمیر میں حالات قابو میں نہیں آ رہے۔ بھارت کی طرف سے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ اور بے گناہ کشمیریوں کی ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ کے باوجود کشمیری بھارت کے قابو میں نہیں آ رہے۔ اندرون ملک ہی مودی سرکار پر تھو تھو نہیں ہو رہی بلکہ عالمی سطح پر بھی بھارت رسوا ہو رہا ہے۔ اب اسی ذلت سے بچنے کے لیے بھارتی وزیر اعظم مودی نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے دہلی میں سرکاری سطح پر آل پارٹیز اجلاس طلب کیا ہے۔ اس میں کشمیری سیاسی جماعتوں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ اگرچہ یہ سیاسی جماعتیں بھارت کی ہی کاسہ لیس ہیں اور بھارت کی ہی چاکری کرتی ہیں مگر چلیں پھر بھی شکر ہے کہ انہیں اس قابل سمجھا جا رہا ہے کہ وہ بھی دہلی آ کر اظہار خیال کریں۔ اب اگر پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی اور نیشنل کانفرنس کے عمر عبداللہ اور اسی قبیل کی دیگر بھارتی ہمنوا قیادتیں وہاں ایمانداری سے بھارت سے آرٹیکل 370 اور دفعہ 35 اے کے خاتمے کا اعلان واپس لے کر کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال کرنے پر زور ڈالیں تو مودی کو سمجھ آنے میں آسانی رہے گی کہ اس نے بہت بڑی غلطی کی جس کا مداوا ضروری ہے۔ اگر نریندر مودی ہمت کر کے حریت کانفرنس والوں کو بھی اس مسئلہ پر اظہار خیال کی دعوت دیتے تو اس طرح بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں کو اچھی طرح کشمیریوں کے جذبات سے آگہی ہو سکتی ہے۔ پھر شاید مودی اپنا غلط فیصلہ واپس لینے میں ہی عافیت سمجھے۔
٭٭٭٭٭