مفاہمت نہ سکھا جبرِ ناروا سے مجھے

یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ معافی غلطی کی ہوتی ہے ۔ ظلم کا مکافاتِ عمل ہوتا ہے۔ اس سے انکار کرنا مشکل ہے کہ دنیا میں کسی جانور کسی مخلوق نے انسان کا اتنا شکار نہیں کیا جتنا انسان نے انسان کا کیا ہے۔ انسان نے انسان کو جنگوں میں مارا۔ رشتے بنا کر دوستوں اور دشمنی میں مارا اور یہ انسان دھوکے بازی اور بے وفائی میں اتنے رنگ بدلتا ہے جتنے ر نگ کوئی دوسری مخلوق نہیں بدل سکتی ۔  پاکستان نے امریکہ کی محبت میں دوسری قربانیوں کے ساتھ دو بڑی جنگیں لڑی ہیں ایک جنگ کے بدلے روس کے ٹکڑے ہوگئے۔ دوسری جنگ کے بدلے پڑوسی دشمنوں نے ہمارے ہزاروں چھوٹے چھوٹے بچوں ، دلہنوں ، کو زندہ جلانے کے ساتھ ساتھ ہمارے مزارات ، ریلوے اسٹیشن، بس اڈوں، ہمارے نیول فورس، پاک فورس سے لیکر پورے پاکستان کو نشانہ بنایا ۔اس کا ثبوت دہشت گر داٹیک کروانے والوں کے بیانات اور کلبھوشن یادیو کی شکل میں موجود ہے۔ 
دیے جلانے کی رسم تو بڑی پرانی ہے فراز
 تیرے شہر کے لوگ تو انسان بھی جلا دیتے ہیں 
افسوس کے ساتھ ہماری قربانیوں کے با وجود ہمیں صرف سسک سسک کر جینے کا حق دیا گیا اور آج تک IMFاورFATFکی تلوارہمارے اوپر لٹک رہی ہے اور یہ لٹکتی رہے گی جب تک ہم سی پیک سے لیکر اپنے ایٹمی اثاثے پر کمپرومائز نہیں کریں گے اور امریکہ کو اپنی سر زمین پر بیٹھ کر امریکہ کی چین اور روس کو کمزور کر نے کیلئے جنگ کا مسلسل حصہ نہیں بنیں گے۔ جو اب ناممکن ہے۔ عالمی دنیا جارج برناڈ شا کو سنے جو کہہ رہے ہیں کہ :  "ہم پرندوں کی طرح ہوا میں اڑنا اور مچھلی کی طرح پانی میں تیرنا سیکھ گئے ہیں بس اب سیکھنا باقی ہے کہ زمین پر انسانوں کی طرح کیسے رہنا ہے"
اب ساری دنیا سمجھ لے کہ اب "جیو اور جینے دو"کے اصول پر آنا ہوگااور خون مسلم بہانے کیلئے اسرائیل کو اسلحہ بیچنے اور اس ظلم میں اسرائیل کا ساتھ دینے سے پیچھے ہٹنا ہوگا۔  پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان عالمی ظالمانہ نظام کے ایجنٹوں نے پہنچایا ہے۔ جو صرف نیشنلٹی اور گرین کارڈ پر بک جاتے ہیں ۔ ان میں بہت سے بڑے لوگ ہیں اور ان کا تعلق ہر شعبے سے ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ سیاستدانوں سے نکل کر آگے جائیں اور حکومت سے منسلک ہر شخص جن کے پاس دوسرے ملکوں کی شہریت ہے انھیںا یک فیصلہ کرنے کا الٹی میٹم دے دیں۔ اگر وہ چاہیں تو ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی انھیں ویکسین لگوا کر جس جس ملک کے وہ شہری ہیں ان کے حوالے کریں تاکہ جس ملک سے وفاداری کا انھوں نے حلف اٹھایا ہے ان کی خدمت کر سکیں۔ 
آج اس نازک موقع پر پاکستان کی اسمبلیوں میں جو مار دھاڑ کر کے پاکستان کی سا لمیت کو نقصان پہنچانے کے مرتکب ہیں یاد رکھیں یہ پاکستان کے دوست نہیں ہیں بلکہ غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اپنا رول ادا کر رہے ہیں ۔ انھیں شٹ اپ کال دینی ضروری ہے۔ سارے پاکستان کو ہڑپ کر کے غرانے والوں کا اصلی احتساب ضروری ہو گیا ہے ۔ ان کرپٹ مافیاز کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں کا ضرور پتہ لگائیں ۔ اب نظریہء ضرورت کے تحت پاکستان میں بربادی لانے والی جماعتوں اور ان میں بیٹھے مافیاز سے با خبر اور خبردار رہنا ہوگا۔ ٹیپو سلطان ؒ نے بہت خوب کہا ہے کہ : "تم مجھے میرے دوستوں سے بچائو میں تمھیں تمہارے دشمنوں سے بچائوں گا ۔پاکستان کو آج اور اس سے پہلے بھی شاید وزیر اعظم نہیں "سٹیٹس مین " کی ضرورت تھی ۔ کیونکہ پاکستان اقبال ؒ اور قائد ؒ کے خواب کی تکمیل کیلئے انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے ۔ قائد اعظم ؒ فرماتے تھے کہ دوستیاں سب سے رکھیں مگر بھروسہ اللہ کے فضل کے بعداپنی طاقت پر کریں ۔اب اسلام کی روح کے مطابق دنیا سے تعلق بنانے کو ترجیح دینا ہوگی کہ اللہ کریم اور رسول کریم ﷺ نے ضابطہ حکمرانی کے اصول وضع کر دیے ہیں ۔ اب چائنہ اور روس کو ہر صورت ایک قدم آگے آکر پاکستان کا ساتھ دینا ہوگا۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ عمران خان پارٹی کے اندر مافیاز سے لڑرہی دوسری جماعتوں سے نبرد آزما ہوں۔ملک کی اندرونی سازشوں کا مقابلہ کرے یا بیرونی سازشوں اور ففتھ جنریشن وار کا مقابلہ کرے ؟جس کے ساتھ انڈر ٹریننگ ٹیم ہے ۔ بہت سی حکومتی مشنری بھی سازشیں کرتی ہے لیکن ایک بات عیاں کہ جو اللہ عمران خان کو یہاں تک لایا ہے وہ آگے بھی لے کر جائے گا۔ 
میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ ــ"جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ کسی سے نہیں ڈرتا"اور جو اللہ سے نہیں ڈرتا وہ سب سے ڈرتا ہے۔ جناب وزیر اعظم عمران خان کی بہادری اور جرأت دیکھ کر یقین ہوتا ہے کہ وہ صرف اللہ سے ڈرتے ہیں ۔ وگرنہ ظالمانہ نظام کے سامنے اس جرأت سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا نہ آتا اور انسان کا ایمان جب کامل ہو جائے کہ عزت ، ذلت، موت، زندگی اور رزق صرف اللہ کے پاس ہے تو ا س کے اندر سے دنیا کا خوف نکل جاتا ہے اور وہ سینہ تان کر امریکہ کو اڈے دینے کے سوال پر امریکی صحافی کو جواب دیتا ہے کہ "ABSOLUTELY NOT"
اور جب وہ یہ بات کر رہے تھے تو ان کی باڈی لینگوئج بتا رہی تھی :آرزئووں کے دھوکے میں زندگیاں ختم ہو جاتی ہیں (حضرت علی ؓ)
عمران خان کی حکومت اور جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے مگر انھوں نے کوئی پرواہ نہیں کی اور انکار کرتے ہوئے گویا کہہ رہے تھے کہ 
مفاہمت نہ سکھا جبر ِ ناروا سے مجھے
میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...