ایمان کی کمزوری ، ڈھٹائی یا کچھ اور؟

Jun 22, 2022

شدیدگرمی کے سبب شارٹ فال بڑھنے سے لوڈشیڈنک بھی شدت اختیارکر چکی جس پروفاقی حکومت  اور صوبائی حکومتوںنے مارکیٹس رات9بجے بند کرنے کا حکم دیا، تاجروں نے بات ماننے سے انکار کرتے ہوئے احتجاج کا عندیہ دیا۔ وجہ کیا؟ کہ کاروبار تباہ ہو جائیں گے۔ان عقلمندوں سے کوئی پوچھے کہ آپ12 یاایک بجے دکانیں کھولنے کی بجائے 8یا9 بجے دکانیں کھولیں، دکان کھولنے کا دوانیہ متاثر نہیں ہو گا، تو ظاہر ہے آمدن بھی متاثر نہیں ہو گی۔ اسے ایمان کی کمزوری کہا جائے یا ڈھٹائی؟ کہ عزت، ذلت ، رزق اور موت اللہ تعالی کے کُلی اختیار میں ہے۔قرآن اس بات کو بار بار دُہراتا ہے،جو بات بار بار دہرائی جائے اس کا بنیادی مقصدیہی ہوتا ہے کہ انسان کو باور کرایا جائے کہ اس کے رب کی کیا منشاء ہے؟مگر ہم ہیں کہ اتنی روشن اور واضع نشانیوں کے باوجود حقیقت کا ادراک نہیں کرتے۔ افسوس کہ قرآن جس قدر انسان کو جھنجوڑتا ہے انسان اتنا ہی لاپرواہی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ قرآن دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سب سے زیادہ نا سمجھ کر پڑھی جانے والی کتاب بھی۔ اس کا عملی مظاہرہ آج کل تاجر برادری کی جانب سے ہو رہا ہے۔ ان دِنوں ملک میں ایک طرف شدید گرمی اپنے تیور دکھا رہی ہے تو دوسری جانب بد ترین لوڈ شیڈنگ نے واقعی زندگی کی تلخی کو ناقابلِ حد تک بڑھا دیا ہے، 
 ہماری حکمران اشرافیا کے نزدیک عوام کی کوئی وقعت نہیں۔ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی طالع آزماؤں نے اسے اپنی گرفت میں اس طرح لیاکہ اسکے قیام کے اصل مقصد کو ہی پسِ پشت ڈال دیا۔ ہر کسی نے اپنی ذات کو ترجیع دی اور عوام کو یکسر نظر انداز کیا۔یہاں تک کہ عوام کو قوم بننے ہی نہیں دیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ حکمران خود کو اشرافیا اور عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھتے ہیں ۔ قیامِ پاکستان کے ساتھ جس اسلامی نظام کی توقع تھی تاکہ ہر کوئی اپنی اُمنگوں اور اسلامی عقیدے کے مطابق زندگی گزار سکے۔ عوام ایسا نظام چاہتے تھے جس کی جھلک خلفائے راشدین کے نظام میں نظر آتی ہے۔ جس میںخلیفۂ وقت اتنی تنخواہ کا تقاضا کرتا تھا جو مدینہ کے کسی مزدور کی مزدوری کے برابر ہو جبکہ یہاں حکمران اشرافیا کی اکثریت مراعات یافتا طبقوں پر مشتمل ہے۔ چنانچہ انہوں نے پاکستان کیلئے اسلامی نظام کی امپورٹڈ جمہوری نظام کا انتخاب کیاجس میں ان کے مفادات کا تحفظ پنہا ں تھا، مگر جمہوریت کے ثمرات کا عشرِ عشیر بھی عوام تک نہیں پہنچنے دیا گیا۔ ایوب دور کو پاکستان کی ترقی میں مثالی کہا جاتا ہے، یہ دور مارشل لاء کا دور تھا، پاکستان کا پہلا منگلا ڈیم اسی عہد میں1965میں مکمل ہوا جو دنیا کا چھٹا بڑاڈیم ہے، ایوب دور میں ہی1968میں دنیا کا سب سے بڑا تربیلا ڈیم شروع ہوااس نے78میں کام شروع کیا ،82میں مکمل طور پرفعال ہوا، اسی سال پاکستانیوں نے پہلی بار’لوڈ شیڈنگ‘ کا نام سنا۔UPSیا جنریٹر سے تب تک کوئی واقف نہ تھا، تب جنرل ضیاء کا مارشل لا ء تھا۔ ان کا یہ بیان ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ’’لوڈ شیڈنگ میری زندگی تک جاری رہے گی‘، یہ اتفاق ہے کہ 1988میں طیارہ حادثہ میںوہ دنیا سے رخصت ہوئے۔انکے بعد بھی مسئلہ جوں کا توں رہا۔ جسے بعد کی سیاسی رجیم نے اپنے مالی مفادات کی تکمیل کیلئے استعمال کیا۔ ہائیڈرل پاور پلانٹ لگانے یا ڈیم بنانے کی بجائے تیل اور گیس سے چلنے والے پلانٹ لگا کر مہنگی بجلی پیدا کی گئی۔ اس میں سیاستدانوں کے مفاد کی کہانیاں رینٹل پاور پلانٹ اور نندی پور کے نام سے انصاف کی منتظر ہیں۔ اسی تجربے کو گذشتہ سالوں دوہرا گیا جب گیس تیل سے چلنے والے پلانٹس لگا کر ایک طرف گیس کی قلت پیدا کی گئی تو دوسری طرف مہنگے تیل سے مہنگی بجلی بنا کر بجلی انسانوں کی پہنچ سے دور کر دی گئی، جس کی آڑ میں سبسڈی کی مد میں اربوں ڈکارے جانے لگے۔ مسئلہ پھرحل نہ ہوا ۔ دوسرا ظلم یہ کہ ان پاور کمپنیوں سے عجیب معاہدا ہوا کہ آپ بجلی کم بھی بنائیں مگر پیسے پورے لیں۔ یوںسرکلر ڈیٹ نے رہی سہی کسر نکال دی۔ موجودہ حالات میں بجلی کی کھپت کم کرنے کیلئے دکانیں رات9بجے بند کرنے کا فیصلہ ہوا جسے تاجر برادری نے ماننے سے انکار کر دیا حالانکہ پاکستان ایسے خطے میں ہے جہاں سورج لائٹ سارا سال رہتی ہے۔ اگر دنیا اس سے استفادہ کر سکتی ہے تو ہم کیوں نہیں۔ ہمارے یہاں ایسی تمام کوششیں ،تجربے ماضی میں بھی ناکام ہوئے۔معذرت کیساتھ کاروباری طبقہ چمگادڑوں اور اور الووں کے گروہ سے لگتا ہے جو دن کو کاروبار کرنے کی بجائے رات کو ترجیع دیتا ہے۔ مشہور مقولہ ہے کہ ’جلدی سونا، جلدی اٹھنا‘ صحت کی علامت ہے۔ ہماری تاجر برادری اسکے الٹ چل رہی ہے یعنی ’دیر سے سونا دیر سے اٹھنا‘ جس کے نتیجے میں اکثریت کی توندیں بڑھی ہوئی ہیں اور بلڈ پریشر، شوگر اور عارضہ قلب بھی عام ہے۔ اس لئے دکانیں 8بجے کھولیں، رات 8بجے بند کریں ، صحت بھی برقراراور سوشل لائف بھی بحال۔ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ خود کو بدلنا مشکل ہوتا ہے‘ یہی بات ہے۔ اسے ایمان کی کمزوری کہیں یا ڈھٹائی؟

مزیدخبریں