پاکستان اور ایران کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوگیا۔ وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے تہران میں ایرانی ہم منصب علی اکبر محرابیان سے ملاقات کی۔ ملاقات کا مقصد دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون کا فروغ تھا۔ اس موقع پر ایران سے گوادر تک کے مختلف پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
پاکستان اس وقت توانائی کے سنگین بحران کا شکار ہے۔ بجلی اور گیس کے وسائل مطلوبہ اہداف کے حصول کیلئے ناکافی ثابت ہوئے ہیں۔گزشتہ چند ماہ سے بجلی کی لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ پورے ملک میں گھنٹوں بجلی غائب رہتی ہے جس کی وجہ سے عوام کے ساتھ ساتھ کاروباری اور صنعتی ادارے بھی مسائل و مشکلات کا شکار ہیں۔اسی طرح گیس کے ذخائر بھی ہماری ضروریات کیلئے کافی نہیں ہیں اور ہمیں باہر سے گیس منگوانا پڑتی ہے۔ قطر اور ایران کے ساتھ گیس کی خریداری کے جو معاہدے طے پائے تھے وہ بھی بوجوہ روبہ عمل نہیں آ سکے۔ برسوں پہلے حکومت نے بجلی کے حصول کیلئے انڈیپنڈنٹ پاور کمپنیوں کے ساتھ جو معاہدے کر رکھے ہیں وہ ملک اور قوم کے مفاد کے صریحاً خلاف ہونے کے باوجود ان پر نظرثانی نہیں کی جاتی۔ کیوں کہ کمپنیوں کے بیشتر مالکان ہر حکومت میں شامل ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں بجلی پیدا کرنے کیلئے کوئلہ اور تیل باہر سے منگوایا جاتا ہے جس کی وجہ سے انکی پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور یوں عوام کو مہنگے داموں بجلی اور گیس حاصل کرناپڑتی ہے۔ بجلی اور گیس میں ہونیوالے غیرمعمولی اضافے کا اثر اشیاء کی قیمتوں پر پڑتا ہے اور عوام مجبوراً یہ کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اب ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ موجودہ حکومت کے وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے توانائی کے حصول کے سلسلے میں جو بات چیت کی ہے وہ موجودہ حالات میں حوصلہ افزاء ہے۔ بجلی یا گیس جہاں سے بھی رعایتی نرخوں پر ملے ضرور خریدنی چاہیے۔ ماضی میں سستی بجلی اور گیس کی خریداری میں ناواجب تاخیرکا خمیازہ قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اب موقع ہے کہ ہم ایران کیساتھ توانائی کے حصول کیلئے بات چیت کو مزید آگے بڑھائیں اوراسکے ساتھ ساتھ ملک میں توانائی کے متبادل ذرائع بھی استعمال کئے جائیں تاکہ توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکے اور عوام بھی سکھ کا سانس لے سکیں ۔