غریب ملک میں محل نما سرکاری اقامت گاہیں

اس وقت اعلیٰ پولیس افسران اور پنجاب کے بیوروکریٹس کی سرکاری رہائش گاہوں کی ایک فہرست میرے سامنے ہے۔ افسران کی رہائش گاہیں کئی کئی کنالوں پر محیط ہیں۔ جب بات ہوتی ہے بچت کی اور کہاجاتا ہے ملک کرائسس سے گزر رہا ہے۔ بڑی مہنگائی ہے۔ شدید پریشانی ہے۔ عوام حالت اضطراب میں ہیں تو سرکاری رہائش گاہوں کی اس فہرست کو دل گردہ بڑا کر کے منظرِ عام پر لانے کو دل کرتا ہے۔ ابھی ایک اور قصّہ بھی زبانِ زد عام رہا۔ ثاقب نثار جب چیف جسٹس آف پاکستان تھے تو چرچا کیا گیا کہ پاکستان کو بجلی اور پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ ڈیم بنے گے تو پانی سے سستی بجلی بنے گی۔ فصلوں کو بھی پانی ملے گا ۔ ایک مہم چلائی گئی فنڈ ریزنگ کے لیے چیف جسٹس صاحب نے ملکوں ملکوں دورہ کیا۔ اپنے اعلیٰ ترین منصب کا بھی خیال نہ رکھا وہ بھاشا ڈیم کے لیے پیسے اکٹھے کرتے نظر آئے۔ چیف جسٹس کے نام کا اکائونٹ بھی کھولا گیا۔ ترغیب دی گئی کہ جو ڈیم کے لیے عطیہ دینا چاہے وہ اپنی رقوم متعلقہ اکائونٹ میں بھیج سکتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے چیف جسٹس کے نام پر ڈیم کی مد میں کروڑوں نہیں، اربوں روپیہ جمع ہو گیا جو شاید کسی اکائونٹ میں موجود ہو لیکن قوم کو اس سے متعلقہ ضروری معلومات دستیاب نہیں۔
کہنا مجھے یہ ہے کہ ہم چیریٹی کے لیے مختلف مدوں میں فنڈز اکٹھے کرتے رہتے ہیں۔ سو روپے تک کی اپیل کی جاتی ہے۔ جنرل ایوب خاں کے دور میں جنگ 65کے بعد ’’ایک ٹیڈی پیسہ ایک ٹینک‘‘ کے نام سے ملک گیر چندہ مہم چلی۔ حکومت نے کہا پوری قوم اگر روزانہ ٹیڈی پیسہ فنڈ دے تو لاکھوں کا ٹینک ایک دن میں خریدا جا سکتا ہے۔ اُن دنوں ٹیڈی پیسہ چلتا تھا جو بہت ہی ویلیوایبل تھا۔ لوگوں نے جگہ جگہ رکھے چندہ بکس میں ٹیڈی پیسہ ڈالنا شروع کیا تو رات کو جب ڈبوں میں پڑے پیسوں کی کائونٹنگ کی جاتی تو معلوم ہوتا کہ ٹینک خریدنے جتنی رقم جمع ہو گئی ہے۔ یہ اچھی مہم تھی ۔ قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے۔ قوم مصیبت کے وقت ملک کے ساتھ کھڑا ہونے کی سعی کر لے تو جان و مال کی بھی پرواہ نہیں کرتی۔
آج دیکھتا ہوں ملک میں پٹرول، کھانے پینے اوردیگر ضروریات زندگی کی اشیاء کس قدر مہنگی ہو گئی ہیں۔ مہنگائی نے آج سب کو جکڑا ہوا ہے۔ بہت سارے وسائل رکھنے کے باوجود حکومت مہنگائی کے آگے ناتواں نظر آتی ہے۔ پٹرول مہنگا ہونے کے ساتھ ہی حکومت نے اگرچہ سرکاری افسران، وزیراعظم اور صدرِ پاکستان سمیت تمام وزراء کے پٹرول کوٹے میں چالیس فیصد تک کمی کا اعلان کردیا ہے۔ افسران اور وزراء کے غیر ملکی دوروں پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ یہ اچھے اقدامات ہیں لیکن نا کافی ہیں۔
اب اُس فہرست کی طرف آتا ہوں کہ کس کس اعلیٰ پولیس افسر کو کتنی بڑی سرکاری رہائش گاہیں الاٹ ہیں۔ پنجاب پولیس کے سات ڈی آئی جیز اور 32ایس ایس پیز ایسے ہیں جن کی سرکاری رہائش گاہیں 850کنال پر محیط ہیں۔ ڈی آئی جی گوجرانوالہ 70کنال کے گھر میں رہتے ہیں۔ ڈی آئی جی سرگودھا کو 40 کنال کا گھر ملا ہوا ہے۔ ڈی آئی جی راولپنڈی اور فیصل آباد 20،20کنال کے سرکاری گھر میں رہتے ہیں۔ ڈی آئی جی ملتان اور ڈی آئی جی لاہور کے پاس 18اور 15کنال کے گھر ہیں۔ ایس ایس پی میانوالی کا گھر 70کنال پر محیط ہے۔ ایس ایس پی قصور 20کنال کے گھر میں رہتے ہیں۔ایس ایس پی شیخوپورہ 32اور ایس ایس پی گوجرانوالہ 25کنال کے گھر میں اقامت پذیر ہیں۔ ایس ایس پی گجرات کو 8کنال کا گھر ملا ہوا ہے۔ ایس ایس پی حافظ آباد 10کنال کے گھر میں رہتے ہیں۔ سیالکوٹ کے ایس ایس پی 9کنال اور ایس ایس پی جھنگ 18کنال کے گھر میں رہتے ہیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ایس ایس پی 5کنال جبکہ ایس ایس پی ملتان13کنال کے گھر میں رہتے ہیں۔ ایس ایس پی وہاڑی 20کنال، ایس ایس پی خانیوال15کنال، ایس ایس پی پاکپتن 14کنال، ایس ایس پی بہاولپور 15کنال جبکہ بہاولنگر کے ایس ایس پی کو 32کنال کا گھر ملا ہوا ہے۔ رحیم یار خاں کے ایس ایس پی 22کنال کا گھر رکھتے ہیں جبکہ لیہ، راولپنڈی، چکوال، جہلم، خوشاب، بھکر اور نارووال کے ایس ایس پیز کے پاس بھی 6کنال سے لے کر 10کنال تک کے سرکاری گھر ہیں۔ ایس ایس پی راجن پور 37کنال کے گھر میں رہتے ہیں۔ یہ سب محل نما سرکاری رہائش گاہیں ہیں جو ان پولیس افسران کو ملی ہوئی ہیں۔ ان گھروں کی تزئین و آرائش پر ہر سال 80کروڑ روپے خرچ آتے ہیں۔ جو لاہور کے تین بڑے سرکاری ہسپتالوں کے سالانہ بجٹ کے برابر ہیں۔ دو ہزار چھ سو کنال پر محیط ان سرکاری رہائش گاہوں کی نگہداشت اور ان رہائش گاہوں کے مکینوں کی خدمت گزاری کے لیے 30ہزار ملازمین متعین ہیں جن پر تنخواہوں اور مختلف الائونسز کی مد میں 20کروڑ روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔ یہ تمام رہائش گاہیں ہر ڈویژن اور ہر ضلع کے ایسے اہم علاقوں میں واقع ہیں جہاں زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں۔ اگر یہ تمام بڑی رہائش گاہیں بیچ دی جائیں تو 70سے 80ارب روپے قومی خزانے کو حاصل ہو سکتے ہیں۔ یہ رقم واپڈا کے مجموعی خسارے سے دوگنا زیادہ ہے۔ گویا اگر یہ رہائش گاہیں بیچ کر حاصل ہونے والی رقم واپڈا کو دے دی جائے تو واپڈا کو چار سال تک بجلی کی قیمت بڑھانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔ اس رقم سے 70نئے جدید ہسپتال بن سکتے ہیں اور اگر یہ رقم ’’وارسا‘‘کے حوالے کی جائے تو وہ اس رقم سے سمندر کا پانی صاف کرنے کے 12پلانٹ لگا سکتا ہے جس سے ملک کے 45فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی مہیا ہو سکتا ہے۔
دنیا بھر میں سرکاری رہائش گاہیں سکڑ رہی ہیں۔ برطانیہ میں چیف کمشنر سے وزیراعظم تک تین کمروں پر مشتمل فلیٹس میں رہتے ہیں۔ جاپان میں وزیراعظم ہائوس سرے سے ہے ہی نہیں۔ امریکہ کا وہائٹ ہائوس پنجاب کے گورنر ہائوس سے چھوٹا ہے۔ یہ بڑی مملکتوں کے سربراہان کی صورت حال ہے۔ وہاں کے اعلیٰ سرکاری افسر اور بیوروکریٹ عام بستیوں کے عام فلیٹوں میں رہتے ہیں۔ اُن کے گھروں میں لان ہوتے ہیں نہ نوکر چاکر۔ لیکن پاکستان میں کسی بھی ڈسٹرکٹ کا دورہ کریں اعلیٰ سرکاری افسران کی موجیں لگی ہوئی ہیں۔ وہ ٹیکسوں کے پیسے سے اپنے محل نما سرکاری گھروں میں بڑے ٹھاٹھ سے زندگی گزارتے ہیں۔خلق خدا مر رہی ہے لیکن انہیں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ٹیکسوں کی کمائی پر پلنے والے اپنے گھرں کے بڑے لانوں میں جھولے ڈالے بیٹھے ہوئے ہیں یہ ہم سب کے لیے بڑے شرم کا مقام ہے۔

ای پیپر دی نیشن