فیصل ادریس بٹ
دیر آید درست آید کئی دن کی شش و پنج کے بعد بلوچستان کا بجٹ کچھ تاخیر سے ہی سہی بالاآخر پیش ہوگیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو ان کی کابینہ کے وزراء نے صوبے کی فعال بیوروکریسی کی مدد سے وفاق کی طرز پر نہایت ناپ تول کر جو بجٹ پیش کیا ہے وہ وفاقی بجٹ کی طرح مناسب ہے۔ تنخواہوں اور پنشن میں اس طرح اضافہ ہوا ہے تاہم پھر بھی اگر بلوچستان حکومت اپنے غیر ضروری اخراجات پر قابو پا لے تو کافی رقم بچا سکتی ہے۔ یہ بجٹ 750 ارب روپے کا ہے جس میں 49 ارب روپے کا خسارہ شامل ہے۔ تاہم اس کے باوجود اس بجٹ کی بڑی اہم بات یہ ہے کہ پہلی مرتبہ تعلیم، صحت اور زراعت کو خصوصی توجہ دی گئی ہے سب سے زیادہ رقم صحت کے شعبہ کے لئے رکھی گئی ہے جو 14 ارب ہے اس مد میں 5 ارب روپے صحت کارڈ کے لئے رکھے گئے ہیں جس سے غریب لوگوں کو فائدہ ہوگا سابق حکومت دعووں کے باوجود ایسا نہ کر سکی۔تھی یہ کام بھی موجودہ حکومت نے کر دکھایا۔اس کا کریڈٹ وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے۔ اسی طرح محکمہ صحت میں ایک ہزار نئی آسامیاں پیدا کی جائیں گی اس کے بعد محکمہ تعلیم کا نمبر آتا ہے جس کے لئے 12 ارب روپے مختص ہیں جس سے متعدد پرائمری اور سیکنڈری سکولوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا اس طرح محکمہ زراعت کے لئے 11 ارب روپے رکھے گئے ہیں نیز کسانوں میں ایک ہزار گرین ٹریکٹر بھی تقسیم کئے جائیں گے۔ اس سے امید ہے زرعی شعبہ میں ترقی ہوگی یہ تو بجٹ کا اجمالی جائزہ ہے اب صوبائی اسمبلی بحث و مباحثے کے بعد اسے منظور کرے گی۔ بجٹ کی تیاری اور اس کی منظوری میں صوبائی حکومت کے علاوہ صوبائی انتظامیہ کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے جو تمام اعداد و شمار اور اپنے اپنے محکمے سے منسلک اخراجات و محاصل کے بعد اپنی ترجیحات تیار کر کے بجٹ سازی کا عمل مکمل کرتی ہیں۔ اس وقت بلوچستان کے چیف سیکرٹری عبدالعزیز عقیلی تمام تر دشواریوں کے باوجود کم وقت میں اپنے محکموں کے سیکرٹریز کے ساتھ مل کر بجٹ کو تیار کر کے پیش کرنے میں سرخرو ہو گئے ہیں ۔ صوبائی حکومت اور انتظامیہ کی یہ کاوش امید ہے عوام میں ان کو پذیرائی دے گی کیونکہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔
صوبائی سیکرٹری انفارمیشن حمزہ بن شفقاعت بھدر نے جس حسن و خوبی کے ساتھ یہ بجٹ میڈیا کے ساتھ شیئر کیا وہ بھی قابل تحسین ہے موصوف ایک نوجوان پُرجوش ’’پیس گروپ‘‘ کے افسر ہیں، اور وہ گجرات کے نواحی علاقے ’’بھدر‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں انکے والد کا شمار پنجاب پولیس کے انتہائی نامور دبنگ دلیر ایماندار فرض شناس پولیس افیسرز میں ہوتا ہے۔ چوہدری شفقاعت بھدر مرحوم کی بطور کپتان لاہور گراں قدر خدمات ہیں اور انہیں آج بھی اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کی طرف سے صوبے کے حقوق اور وفاق کی طرف سے منظور شدہ ادائیگیوں میں تاخیر پر جو جرات مندانہ قدم اٹھایا گیا ہے وہ قابل تعریف گردانا جارہا ہے۔ بجٹ اجلاس سے قبل وفاقی حکومت نے جب اس حوالے سے ایک اہم اجلاس اسلام آباد میں طلب کیا تا تو وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے اس میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے اپنے تحفظات دور کرنے کی بات کی تھی۔اس پر وزیراعظم میاں شہبازشریف نے فوری ایکشن لیتے ہوئے ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی اور یوں بلوچستان کے واجب الادا رقوم اور دیگر حقوق کے بارے میں پیش رفت ہوئی جس پر عبدالقدوس بزنجو مبارکباد کے مستحق ہیں۔ گزشتہ دنوں انہی حالات کے پیش نظر وزیراعلیٰ بزنجو نے سرکاری تقریبات اور دفاتر میں منرل واٹر کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے کفائیت شعاری مہم کی طرف گامزن بلوچستان حکومت کا بہتر قدم ہے۔ بہتر ہے کہ حکومت بلوچستان پہل کرتے ہوئے سرکاری ملازمین یعی افسران اور ایم پی ایز و وزراء کے تمام مراعات پر پابندی لگا دے اور ان کی تنخواہوں کو بھی کم کرے۔ اس طرح البتہ صوبے میں بچت کو فروغ مل سکتا ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے منرل واٹر کی بوتل بند کرنے سے چند لاکھ کی ہی بجٹ ہوگی۔ مالی بحران کا شکار صوبے میں اس وقت سرکاری ملازمین نے بھی اگر اساتذہ کی طرح سڑکوں پر بھوک ہڑتال کرنے کی مشق شروع کر دی تو حکمرانوں کے لئے مشکل پیدا ہو سکتی ہے ہاں البتہ بجٹ میں ان کی تنخواہوں میں جو 30 سے 35 فیصد اضافہ ہو رہا ہے وہ ان کی اشک شوئی کے لئے کافی ہے۔ عجیب حکمران ہیں مہنگائی کنٹرول نہیں کرتے جسکی وجہ سے تنخواہ کم پڑ رہی ہے جب تک یہ کنٹرول نہیں ہوگی جتنا چاہے تنخواہوں میں اضافہ کر لیں حالات سدھرنے والے نہیں۔ دوسری طرف صوبے میں انتہا پسندی خاص طور پر قوم پرستی کے نام پر پھیلی دہشت گردی آہستہ آہستہ ہی سہی مگر کم ہو رہی ہے۔ بڑے بڑے نامور دہشت گرد یا تو مارے جا چکے ہیں یا چھپے ہوئے ہیں بہت سے دوبارہ عملی زندگی کی طرف لوٹ آئے ہیں، ہتھیار پھینک کر صوبائی ترقی میں اپنا رول ادا کر رہے ہیں۔ حکومت اور مسلح افواج کی طرف سے ایسے لوٹ آنے والے لوگوں کے لئے بھرپور مالی امداد اور ملازمتوں میں حصہ کی وجہ سے یہ لوگ خوش ہیں امید ہے ان کے دیکھا دیکھی دیگر گمراہ جذباتی نوجوان بھی صلح اور امن کی راہ اختیار کریں گے۔ اس سے امید ہے صوبے میں امن و امان کی صورتحال بھی بہتر ہوگی اور سکیورٹی فورسز کو اطمینان نصیب ہوگا جو بڑی جانفشانی سے نامساعد حالات میں بھی اپنی قومی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں آنے والے بجٹ میں صوبائی بیوروکریسی اور وزارت خزانہ والوں کی کاوشیں کیا رنگ لاتی ہیں اور عوامی سطح پر لوگوں کو کیا ریلیف ملتا ہے۔ اب تو قازقستان، تاجکستان اور افغانستان سے بلوچستان کے راستے زمینی تجارت کی راہ بھی ہموار ہو چکی ہے۔ مال بردار ٹرک اور ٹرالر آرہے ہیں اس سے بھی صوبے کی تجارتی اور معاشی حالت بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔