ندیم بسرا
وفاق کے بعد پنجاب کا بجٹ کامیابی سے پیش ہوگیا مگر مہنگائی پر قابو پانے کی کوششوں میں کامیابی ہماری حکومت کے پائوں نہیں چوم رہی۔آئی ایم ایف کی طرف سے معاہدہ نہ ہونے کا سنانے والے حکمران غریب طبقے کا کوئی پرسہ نہیں سن رہے۔ماضی میں کہا جاتا تھا کہ غریب عوام کو دو وقت روٹی تو میسر ہے اب ایک وقت کی روٹی ہی امتحان بنا ہوا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے اقدامات کیے تو جارہے ہیں مگر یہ ناکافی ہیں۔ملک میں ایک طرف مہنگائی اور بے روزگاری عوام کی بے یقینی بڑھا رہی ہے اور مستقبل کے سہانے خواب ان کو موت کی طرف بھی لے جاتے ہیں۔لیبیا میں کشتی حادثہ اور تین سو کے قریب قیمتی پاکستانیوں کی زندگیوں کا خاتمہ اسی بے یقینی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نوجوان اچھے روزگار کے مواقع کے لیے یورپ کی جانب سفر کررہے ہیں۔ہماری سیاسی جماعتوں کو سوچنا چاہیے کہ ملک قائم ہوئے پچھتر برس سے زائد عرصہ بیت گیا وہ کونسی غلطیاں ہم سے ہوتی رہی ہیں کہ اتنے برسوں بعد بھی ہم اپنے نوجوانوں کو محفوظ مستقبل نہ دے سکے اور وہ آج بھی اوورسیز پاکستانی بننے کو ترجیح کیوں دے رہے ہیں۔جو بھی حکومتیں رہیں وہ سب اس کے کہیں نہ کہیں ذمہ دار ضرور ہونگے کیونکہ بہتر معیار زندگی دینا ریاست کی ذمہ داری ہے ہم کب سے غلطیاں کررہے ہیں اور کیوں کررہے ہیں ؟۔
یہ ایسا موقع ہے کہ ہم سب کو سیکھنے کے لیے مل بیٹھنا ہوگا مگر ہوگا کیا چار روز یہ بحث ہوگی پارلیمنٹ میں تقریریں بھی ہونگی شاید کوئی قانون سازی بھی ہوجائے مگر اصل بیماری کو جڑ سے نہیں پکڑا جائے گا جب تک ہم بے روزگاری کی فیکٹریاں ختم نہیں کردیتے اس وقت تک ایسے حادثے ہوتے ہی رہیں گے لہذا ملک میں نوجوانوں کے روزگار کے مواقع پیدا کیے جایئں اپنے نوجوانوں کو ملکی ترقی کے لیے استعمال کریں اس کے لیے سب جماعتوں کو اپنی اپنی سیاسی دکان واری کا استعمال بند کرناہوگا پھر ہی مسئلے کا کوئی حل سامنے آئے گا۔
بجٹ پر بات ہورہی تھی تو پنجاب کا بجٹ بھی پیش ہوگیا ہے۔پنجاب کی نگران حکومت نے آئندہ چار ماہ کے لئے اخراجات جاریہ اورجاری ترقیاتی سکیموں کے لئے فنڈز مختص کرنے پر مبنی بجٹ پیش کیا جس کے مطابق کوئی نیاٹیکس نہیں لگایا گیا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ بزنس سے سیلز ٹیکس کا خاتمہ کر دیا گیا ہے جس سے آئی ٹی کی ایکسپورٹ بڑھے گی۔ غریب عوام کو ریلیف کی فراہمی کے لئے 70ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
پنجاب کی نگران کابینہ نے آئین کے آرٹیکل 126کے تحت 4 ماہ کے حکومتی اخراجات اور آمدن کی منظوری دی ہے۔ جو یکم جولائی 2023ء سے 30اکتوبر 2023ء تک ہوں گے۔ 4 ماہ کا لے آؤٹ بشمول آمدن و اخراجات 1719 ارب روپے ہے جس میں سے 881ارب روپے وفاق کی طرف سے اور 194ارب روپے پنجاب خود اکٹھے کرے گا۔ پنجاب میں 4800جاری سکیموں میں سے 2500 ترقیاتی سکیمیں اگلے 4ماہ میں مکمل کر لی جائیں گی۔ پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی خصوصی کاوشوں سے1ارب روپے کا جرنلسٹ انڈومنٹ فنڈ کا قائم کیا گیا ہے۔ نگران حکومت کے صوبائی وزیر صنعت وتجارت و توانائی ایس ایم تنویر نے بڑا اعلان کیا کہ پنجاب کی نگران حکومت نے پنجاب بنک اور دیگر بنکوں سے گندم کیلئے لئے گئے 600ارب روپے کے قرض اتارنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر روزانہ 25کروڑ روپے سود ادا کیا جارہاہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو 2024ء میں یہ قرض 1000 ارب روپے جبکہ 2025ء میں 2000ارب روپے ہوجائے گا جس پر حکومت کو روزانہ 80کروڑ روپے کا سود ادا کرنا پڑتا۔ پنجاب کی نگران حکومت نے اس قرض کی ادائیگی شروع کر دی ہے اور سود کی مند میں بچائی گئی رقم عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کی جائے گی اور یہ پنجاب حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ انھوں نے کہا کہ صوبے میں جاری تعمیراتی سکیمیں اگلے 4ماہ میں 50فیصد مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ پنجاب تھرمل پاور کمپنی لمٹیڈ نے 2017ء میں 1240میگاواٹ کے آر ایل این جی بیسیڈ پاور پلانٹ پر کام کا آغاز کیا تھا۔ جو کسی وجوہات کی بنا پر مکمل نہ ہوسکا۔ پنجاب کی نگران حکومت اگلے 2ماہ میں اس منصوبے کو مکمل کر ے گی جس کے لئے 16ارب روپے کے فنڈز رکھے گئے ہیں۔تعلیم اور صحت کے بجٹ میں 31فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ کابینہ نے اسٹامپ ڈیوٹی کی شرح3 فیصد تک بڑھانے کی تجویز مسترد کر دی جبکہ تعمیراتی صنعت کے فروغ کیلئے اسٹامپ ڈیوٹی1 فیصد کرنے کی منظوری دی۔تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں30فیصد اور 80برس سے زائد عمر کے پنشنرز کی پنشن میں 20فیصد اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔