ملک کو درپیش معاشی مشکلات کے تناظر میں ایک مفصل اقتصادی بحالی کے منصوبہ کا اعلان ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اقتصادی بحالی کایہ منصوبہ سی پیک سے بھی بڑا معاشی منصوبہ ثابت ہو گا۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو، پاکستان معاشی طور پر مضبوط اور خود مختار ہو، اقتصادی طور پر ترقی کرے اورہمیں ہر وقت قرضوں کے لیے دوست ممالک یا عالمی اداروں کی طرف نہ دیکھنا پڑے ۔ نہ کبھی ہمارے کسی بھی وزیراعظم کو یہ کہنا پڑے کہ دوست ممالک کچھ کہتے تو نہیں لیکن ان کی چہرے کے تاثرات بتاتے ہیں کہ آخر ہم کب تک قرض مانگتے رہیں گے دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ کب تک قرض دیتے رہیں گے۔ سو ہر وہ منصوبہ جس میں ملک کی بہتری کا امکان ہو، معاشی طور پر مضبوط ہونے اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے کا ذکر ہو گا اس کی کامیابی کے لیے تو دعائیں ہیں۔ کیونکہ پاکستان اس وقت شدید مالی اور معاشی مشکلات سے دوچار ہے۔ صرف تین ارب ڈالر قرض کے لیے آئی ایم ایف نے ہماری جان نکال دی ہے۔ اس معاملے میں جہاں عالمی مالیاتی ادارے نے سختی کر رکھی ہے وہیں ہم خود بھی ان حالات کے ذمہ دار ہیں۔ ہم نہ تو ٹیکس اکٹھا کرنے کے نظام کو بہتر بناتے ہیں، نہ مراعات پر کوئی سمجھوتہ کرتے ہیں اور نہ ہی امراء کے لیے سخت فیصلے کرتے ہیں۔ جیسا چیئرمین سینیٹ کی مراعات میں اضافے کے معاملے میں ہوا ہے ۔ یہ اس ملک کے چیئرمین سینیٹ کو مراعات دی جا رہی ہیں جسے مہینوں سے آئی ایم ایف تین ارب ڈالر قرض کے لیے ہر روز نئی شرط لگا رہا ہے۔
چیئرمین سینیٹ کی رہائش گاہ کا کرایہ ایک لاکھ تین ہزار روپے سے بڑھا کر ڈھائی لاکھ روپے ماہانہ کر دیا گیا ہے۔ سرکاری رہائش گاہ کے فرنیچر کیلئے ایک بار کے اخراجات ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر پچاس لاکھ روپے کر دیے گئے ہیں ۔ دفتر سے پانچ میل سے زیادہ سفر پر دس روپے فی کلومیٹر کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے تین سو اور نجی کار کیلئے چار سو روپے فی کلومیٹر الاو¿نس ملے گا۔ سفر کے دوران رکنے پر سترہ سو پچاس روپے کے بجائے دس ہزار روپے ملیں گے، چیئرمین سینیٹ چارٹرڈ جہاز پر بیرون ملک جاسکیں گے اور ساتھ میں چار اہلخانہ بھی سفر کر سکیں گے۔ کیا بات ہے یہ مراعات تو تکلیف دہ ہیں ۔ اس معاملے میں اراکین سینیٹ کا رویہ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے یعنی تفصیل سے پڑھے بغیر بل پر دستخط کرنے کی اطلاعات ہیں اور یہ دستخط صرف اس لیے کر دیے گئے کہ باقی ممبران کو بھی مراعات ملیں گی۔ خورشید شاہ نے عجب منطق پیش کی ہے کہ باقی اداروں میں بھی مراعات ملتی ہیں ۔ یعنی اس سے غرض نہیں کہ ملک معاشی مشکلات کا شکار ہے مراعات لینے میں مقابلہ اس مشکل وقت میں بھی لازم ہے ۔ یعنی ہم مراعات ضرور لیں بھلے یہ کام قرض لے کر ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔ ان حالات میں ہم اقتصادی ترقی کا کوئی منصوبہ دیکھیں تو دل سے دعا نکلتی ہے کہ ایسا ہر منصوبہ کامیاب ہو ۔ کیونکہ حکمرانوں نے تو فضول خرچیوں سے کسی صورت باز نہیں آنا۔ وہ ہر حال میں خزانہ خالی کرنے کا کام جاری رکھیں گے۔ ایک عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی مشکل ہو چکی ہے لیکن چیئرمین سینیٹ کو گھر کی تزئین و آرائش کے پچاس لاکھ اور بیرون ملک سفر کے لیے سرکار چارٹرڈ طیارے کی اجازت دے سکتی ہے۔ لوگ سڑکوں پر سو رہے ہیں لیکن ملک کی خدمت کے نعروں کے نام پر سیاست کرنے والے سفر کرنے کے پیسے بھی عوام کے خون پسینے سے وصول کریں گے۔ سلیم مانڈوی والا نے اس بل کی مخالفت کر کے ناصرف اپنا حق ادا کیا ہے بلکہ انہوں نے ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے میں بھی حصہ ڈالا ہے۔ کیونکہ ملک کو مالی طور پر مضبوط کرنے کے لیے نئے منصوبوں کے ساتھ ساتھ وسائل کا بہتر استعمال اور حقیقی کفایت شعاری کی بھی ضرورت ہے۔ بہرحال بات کہیں اور چلی گئی۔ ہم نے ملک کو اقتصادی ترقی کے نئے منصوبے پر بات شروع کی تھی تو اس کے مطابق دفاعی پیداوار زرعی ترقی، لائیوسٹاک، معدنیات، کان کنی، آئی ٹی اور توانائی کے کلیدی شعبوں میں مقامی سطح کے ساتھ ساتھ دوست ممالک کی سرمایہ کاری پر زور ہو گا ۔ ان منصوبوں کو تیزی سے آگے بڑھانے کے لیے سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلٹیشن کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے تاکہ ممکنہ سرمایہ کاروں کے لیے 'سنگل ونڈو' انٹرفیس کے طور پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ ایک متفقہ طریقہ کار اختیار کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ ان منصوبوں کے انتظامی امور اور ہم آہنگی میں پاک فو ج کا کلیدی کردار رہے گا ۔ یہ منصوبہ پاکستان کی ترقی کے لئے ”گیم چینجر“ کی حیثیت کا حامل ہے۔ اس منصوبے کے تحت چار سے پانچ سالوں میں پندرہ سے بیس لاکھ لوگوں کو ڈائرکٹ جاب اور 75 لاکھ سے ایک کروڑ کو ان ڈائریکٹ ملازمت کے مواقع فراہم ہونگے۔اس کے ساتھ ساتھ اگلے چار سے پانچ سالوں میں اس منصوبے سے 70بلین ڈالر کی برآمدات70 بلین ڈالر کی Import Substitution ہو گی۔ اس منصوبے سے پاکستان کی فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ میں 100بلین ڈالر کا بھی اضافہ ہو گا۔ آئندہ چار سے پانچ سالوں میں زرِمبادلہ کے ذخائر بھی دریافت ہو جائینگے جو درپیش معاشی مشکلات میں کمی کا باعث بنیں گے۔ان سیکٹرز میں جب تک فیسیلیٹیشن نہیں ہو گی سرمایہ کاری نہیں آئے گی۔ ان سب اچھی اچھی باتوں کے بعد یہ بھی ہے کہ یہ سب ممکن اس وقت ہے جب یہ منصوبہ کامیاب ہوتا ہے۔ یہ سارے اعدادوشمار حقیقت میں اس وقت ہی بدل سکتے ہیں جب ہم بحیثیت قوم کامیاب ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں اگر یہ منصوبہ پایائے تکمیل تک پہنچ جاتا ہے تو دو ہزار پینتیس تک ایک تخمیہ کے مطابق پاکستان ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت بن سکتا ہے۔ سیکیورٹی اور معیشت کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے اسی وجہ سے پاک فوج اس پروجیکٹ کی کامیابی کیلئے مینجمنٹ، کوآرڈینیشن اور اپنی تمام تر توانائی صرف کریگی اور جیسے جیسے یہ پروجیکٹ مضبوط اور مستحکم ہوتا چلا جائیگا آرمی کا رول بتدریج کم ہوتا چلا جائے گا۔ یہ نظام تمام سٹیک ہولڈرز کی نمائندگی کے ساتھ تعاون پر مبنی اور 'پورے حکومتی نقطہ نظر' کے ذریعے اب تک کے پیچیدہ اور طویل کاروباری عمل کو مختصر کر دے گا۔ اس منصوبے کا مقصد وفاق اور صوبوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا ہے تاکہ بروقت فیصلہ سازی اور منصوبہ پر تیزی سے عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اعلیٰ سطح کے وفود کی شرکت، تمام تر مشکلات کے باوجود معیشت کو قابو کرنے کے قومی عزم کو واضح طور پر ظاہر کرتی ہے
آرمی اس منصوبے میں صرف مینجمنٹ اور ٹیکنیکل سپورٹ دے گی تاکہ اس پراجیکٹ کو کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ یہ بات اہم ہے کہ سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل کو بورڈ آف انویسٹمنٹ نے نوٹیفائی بھی کر دیا ہے۔ ملک کے معاشی حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ صوبائی اور فیڈرل لیول پر ایک جامع، مشترکہ اور متفقہ حکمت عملی اپنائی جائے تاکہ بیرونی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کیا جا سکے اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں آرمی اپنی سپورٹ فراہم کرے گی تاکہ پراجیکٹ میں مستقل اور دیرپا بنیادوں پر پروگریس کو یقینی بنایا جا سکے۔ اِس فریم ورک کی مثال ہمیں چین اور دیگر ممالک میں بھی ملتی ہے۔
آخر میں پروین شاکر کا کلام
تیری خوشبو کا پتا کرتی ہے
مجھ پہ احسان ہوا کرتی ہے
چوم کر پھول کو آہستہ سے
معجزہ باد صبا کرتی ہے
کھول کر بند قبا گ±ل کے ہوا
آج خوشبو کو رہا کرتی ہے
ابر برسے تو عنائیت اس کی
شاخ تو صرف دعا کرتی ہے
زندگی پھر سے فضا میں روشن
مشعلِ برگِ حنا کرتی ہے
ہم نے دیکھی ہے وہ اجلی ساعت
رات جب شعر کہا کرتی ہے
شب کی تنہائی میں اب تو اکثر
گفتگو تجھ سے رہا کرتی ہے
دل کو اس راہ پہ چلنا ہی نہیں
جو مجھے تجھ سے جدا کرتی ہے
زندگی میری تھی لیکن اب تو
تیرے کہنے میں رہا کرتی ہے
اس نے دیکھا ہی نہیں ورنہ یہ آنکھ
دل کا احوال کہا کرتی ہے
مصحف دل عجب رنگوں میں
ایک تصویر بنا کرتی ہے
بے نیاز کفِ دریا انگشت
ریت پر نام لکھا کرتی ہے
دیکھ لو آ کے چہرہ میرا
اک نظر بھی تری، کیا کرتی ہے
زندگی بھر کی یہ تاخیر اپنی
رنج سے ملنے کا سوا کرتی ہے
شام پڑتے ہی کسی شخص کی یاد
کوچہء جاں میں صدا کرتی ہے
مسئلہ جب بھی چراغوں کا اٹھا
فیصلہ صرف ہوا کرتی ہے