بخدا ملکی سیاست اور معیشت کی بنیاد پر ذہن میں گونجتے سوالات سے گھبرا چکا ہوں۔ایک بے اختیار شہری ہوتے ہوئے بھی لیکن اپنی عمر ”صحافت“کی تہمت کے ساتھ گزارنے کی وجہ سے کامل بے حسی بھی اپنے نصیب میں نہیں۔ہفتے کے پانچ دن مسلسل غیر متعلق نظر آتے معاملات کے بارے میں یاوہ گوئی میں مصروف رہوں گا تو قارئین ا±کتا جائیں گے۔آنکھ اور کان لہٰذا ملکی معاملات کے حوالے سے ہر وقت کھلے رکھنا ضروری ہے اور تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر کوئی ایسا واقعہ رونما ہوجاتا ہے جو بقول غالب دل ودماغ کو ”کوئے ملامت“ کا ر±خ کرنے کو مجبور کردیتا ہے۔
گزشتہ کئی مہینوں سے مختلف طبی مسائل نے مجھے پارلیمان جانے اور وہاں ہوئی کارروائی کے مشاہدے کے بعد اپنے ”دی نیشن“ کے لئے گیلری کالم لکھنے سے روک رکھا ہے۔پارلیمان میں ہوئی کارروائی کی بدولت اکثر اس کالم کو بھی وافر مواد مل جاتا ہے۔مجھے گماں ہے کہ ان دنوں پارلیمان جارہا ہوتا تو ہرگز اس ”واردات“ سے غافل نہ رہتا جو حال ہی میں ہمارے ایوان بالا یعنی سینٹ میں نہایت مکاری سے ڈال دی گئی ہے۔
مذکورہ بالا تناظر میں تاہم میرے ایک متحرک ساتھی -انصار عباسی- ہمارے پیشے میں مروجہ زبان کے مطابق مجھ سے ”’خبر پھوڑنے میں بازی“ لے گئے۔ پیر کے دن انہوں نے ایک سنسنی خیز خبر دی جس میں تفصیل سے بیان ہوا کہ پرائیویٹ ممبرز ڈے کو یعنی وہ دن جو ا راکین پارلیمان کی جانب سے ”ذاتی“ حیثیت میں کوئی نیا قانون متعارف کروانے کےلئے مختص ہوتا ہے سرکاری اور اپوزیشن جماعتوں کے بنچوں پر بیٹھے اراکین نے یکجاہوکر اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرلیا ہے۔میرے اور آپ کو تخت یا تختہ والے جھگڑوں میں مبتلا نظر آنے والے معزز خواتین و حضرات کی بھاری بھر کم تعداد نے پرکاری سے بھرپور ”سادگی“ استعمال کرتے ہوئے ایک قانون متعارف کروایا۔ مجوزہ قانون کی تفصیلات ایوان میں کھل کر بیان نہیں ہوئیں۔ اس کے عنوان اور شقوں کا ذکر ہی ”منظور ہے-منظور ہے“ سے فیض یاب ہوگیا۔
نظر بظاہر سینٹ سے سرکاری اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ”متفقہ طورپر“ منظور ہوا مسودہ قومی اسمبلی کی تصدیق اور صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد بالآخر ”ایکٹ“کی صورت لاگو ہوگیا تو عام اراکین سینٹ کے علاوہ ایوان بالا میں موجود مختلف کمیٹیوں کے سربراہان کی مراعات میں بھی خیرہ کن اضافہ ہوجائے گا۔اصل ”موجاں ای موجاں“ تاہم سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چئیرمین کو میسر ہوں گی۔ میں ان کی ہوشربا تفصیلات بیان کرتے ہوئے آپ کا دل جلانا نہیں چاہتا۔ فقط دو مراعات کا ذکر ہی کافی ہوگا۔ ایک کی بدولت چیئرمین سینٹ اگر ”عوامی مفاد میں “ ضروری سمجھے تو کسی بیرون ملک جانے کےلئے وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے زیر استعمال طیارے کو اپنے سفر کے لئے ”خصوصی طور“ پر استعمال کرسکتا ہے۔فرض کیا وہاں مطلوبہ سہولت میسر نہ ہو تو چیئرمین صاحب بہادر مسلح افواج یا ملک کی کسی بھی فلائنگ کلب یا چارٹر طیارہ فراہم کرنے والی کمپنی سے ”سرکاری نرخوں“ پر ”خصوصی طیارہ“ حاصل کرنے کے حق دار ہوں گے۔
دوسری ہوشربا تجویز جس کا ذکر ضروری ہے چیئرمین سینٹ کو سرکار کی جانب سے دئے گھر کی ”تزئین وآرائش“سے متعلق ہے۔فی الوقت اس مد میں ایک لاکھ ر وپے سے زیادہ رقم خرچ نہیں کی جاسکتی۔ مہنگائی کے موجودہ دور میں جو حد طے ہے یقینا چیئرمین سینٹ کے رتبے کے شایان شان نہیں۔ اسے لہٰذا پچاس لاکھ روپے کی حد تک بڑھادیا گیا ہے۔شاید ”حاضر سروس“چیئرمین سینٹ کی مراعات میں گرانقدر اضافہ ہم رو پیٹ کر برداشت کرہی لیتے۔ زیادہ تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ مجوزہ قانون کے مطابق چیئرمین سینٹ کے منصب پر تین سال تک براجمان رہنے کے بعد ریٹائر ہوئے صاحبان بھی چند ایسی مراعتوں کے حقدار بن جائیں گے جو عموماََ شاہی خاندانوں سے مختص شمار ہوتی ہیں۔
انصار عباسی نے اپنی خبر میں مراعات کی تفصیل فراہم کی تو انہیں پڑھتے ہوئے مجھے ایک لمحے کو گماں ہوا کہ شاید پاکستان میں سونے یا تیل کے ذخائر ”اچانک“ دریافت ہوگئے ہیں۔ ہم بدنصیب رعایا کو اس کا علم نہیں ہوا لیکن میرے اور آپ کے ”نمائندہ“ ہونے کے دعوے داروں کو اس دریافت کی بھنک پڑگئی۔ جو ”گنگا“ ان کے تصور کے مطابق بہنے والی ہے اس سے ہاتھ دھونے کی بروقت تیاری میں مصروف ہوگئے۔خود کو تقریباََ چٹکی کاٹ کر ہوش دلایا تو خیال آیا کہ گزشتہ برس کے اپریل سے ہم ”دیوالیہ-دیوالیہ“ کی تکرار سنے چلے جارہے ہیں۔
پاکستان کو ”دیوالیہ“سے بچانے کے لئے شہباز شریف کے لگائے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کو رام کرنے کی غرض سے بجلی اور پیٹرول کی قیمتیں ناقابل برداشت حد تک بڑھادیں۔ ان کے اقدامات کا مسلم لیگ (نون) یہ کہتے ہوئے سینہ پھلاکر دفاع کرتی رہی کہ ووٹ بینک سے مالا مال تصور ہوتی اس جماعت نے ملک بچانے کی خاطر اپنی سیاست تباہ کرنے سے گریز نہیں کیا۔ ان کی قربانی بھی مگر رنگ نہ لاپائی۔ ڈالر کی پاکستانی روپے کے مقابلے میں قدر آسمانوں کو چھونے لگی۔اس کا سارا دوش مفتاح اسماعیل کے کندھوں پر ڈالتے ہوے موصوف کو فارغ کردیا گیا۔ان کی جگہ لینے کے لئے ”ڈالر شکن“ شہرت کے حامل اسحاق ڈار کو ”ایمرجنسی وارڈ“ میں حاذق طبیب کی صورت لندن سے بلوایا گیا۔ ڈالر اس کے باوجود قابو میں نہیں آیا۔ آئی ایم ایف سے سہار ے کی امید بھی ختم ہوچکی ہے۔افراطِ زر نے لاکھوں گھرانوں کو روزانہ کی بنیاد پر خط غربت کی جانب دھکیلنا شروع کردیا۔
معاشی اعتبار سے کامل پریشانی اور سوگواری کے اس موسم میں سرکاری اور اپوزیشن جماعتوں کے بے تحاشہ اراکین سینٹ کا باہم مل کر اپنی مراعات میں حیران کن اضافے کیلئے ”واردات“ ڈالنا ہر اعتبار سے عام پاکستانیوں کو ایک سفاک فعل محسوس ہوگا۔ میرے لئے قابل اعتبار چند ذرائع اگرچہ اب یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے ایک سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے جو بذات خود ایک سرمایہ کار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اپنی جماعت کے سربراہ اور سابق صدر آصف علی زرداری سے رابطہ کیا اور انہیں مذکورہ واردات کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ اطلاع مجھ تک یہ بھی آئی ہے کہ سابق صدر مجوزہ قانون کی تفصیلات سن کر بھنا گئے اور اپنی جماعت کے سرکردہ سینیٹروں کی سخت الفاظ میں کلاس لی۔
جو اطلاعات مجھ تک پہنچی ہیں ان کی بابت یہ کالم لکھنے تک واضح انداز میں تصدیق یا تردید حاصل نہیں کرپایاہوں۔ ایک ٹویٹ البتہ نظر سے گزری ہے جس میں پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمن نے کسی شخص کو جواب دیتے ہوئے یقین دلایا ہے کہ ان کی جماعت سینٹ میں ہوئی واردات کو باقاعدہ قانون کی صورت لاگو ہونے کی راہ میں مزاحم ہوگی۔ ان کے لکھے پر اعتبار کرنے کو تر جیح دوں گا۔ اس کے باوجود یہ بات کبھی دل سے نکال نہیں پاﺅں گا کہ ”روٹی کپڑا اور مکان“ کے نعرے پر قائم ہوئی پیپلز پارٹی کے کئی سینیٹروں نے جن کا نام سن کر جی اداس ہوگیا ہے، باریک بینی سے اس مسودے کا جائزہ کیوں نہیں لیا جس کے ذریعے مذکورہ واردات ڈالی گئی تھی۔ان کی ”کوتاہی“ ذہن کو یہ سوچنے کو مجبور کرتی ہے کہ بالآخر سارا جھگڑا ذاتی مراعات اور ٹہکے شہکے ہی کا ہوتا ہے اور باقی سب کہانیاں ہیں۔