بلاول کی سیاست اور بے نظیر بھٹو کی امڈتی یادیں

 ایک دن ایک عدالتی اہلکار نے بے نظیر بھٹو کو کمرہ¿ عدالت میں داخل ہونے سے عملاً گالم گلوچ کرتے ہوئے روک دیا تو وہ اس اہلکار سے تلخ کلامی کے بجائے ہائیکورٹ بار کے لیڈیز روم میں آگئیں جہاں پہلی بار مارشل لاءحکومت کیخلاف مفصل انداز میں انکے خیالات سننے کا موقع ملا اور انکی سیاسی پختگی اور قائدانہ صلاحیتوں کا اندازہ ہوا۔ بھٹو مرحوم کی پھانسی سے کچھ عرصہ قبل اور پھانسی کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو جن اذیت ناک مراحل سے گزرنا پڑا وہ ہماری تاریخ کا المناک حصہ ہیں۔ انہی اذیت ناک مراحل میں جب مرتضیٰ بھٹو نے ”الذوالفقار“ تنظیم بنا کر مارشل لاءحکومت کیخلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا جو ایک طیارے کے اغواء پر منتج ہوئی تو بے نظیر بھٹو کو جلاوطنی اختیار کرنا پڑی جو انکی آبلہ پائی والی سیاست ہی کا حصہ ہے۔ جبکہ اس جلاوطنی میں بھی وہ شریک چیئرپرسن کی حیثیت سے پیپلزپارٹی کی قیادت کرتی رہیں اور ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران پارٹی عہدیداروں کو گائیڈ لائن بھی دیتی رہیں۔ 1985ءکے غیرجماعتی انتخابات کے نتیجہ میں جونیجو حکومت قائم ہوئی تو بے نظیر بھٹو نے جلاوطنی ترک کرکے ملک واپس آنے کا فیصلہ کیا اور 10 اپریل 1986ءکو الصبح انہوں نے لاہور ایئرپورٹ پر اتر کر عملی عوامی جدوجہد کا آغاز کیا۔ میں نے نوائے وقت کے بیٹ رپورٹر کی حیثیت سے بے نظیر بھٹو کے اس یادگار استقبال‘ جلوس اور مینار پاکستان پر انکے پبلک جلسے کی کوریج کی اور آج بھی یہ گواہی دینے کو تیار ہوں کہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی سیاسی لیڈر کا نہ اتنا پرجوش استقبال ہوا اور نہ کسی لیڈر کے جلوس اور جلسے کا ایسا رنگ بنا جو بے نظیر بھٹو نے اپنی عملی سیاست میں پہلی انٹری پر ہی کر کے دکھا دیا تھا۔ پھر میں پنجاب بھر میں منعقد ہونیوالے بے نظیر بھٹو کے جلوسوں اور جلسوں کی کوریج کیلئے انکے ساتھ ہی رہا۔ ان کا یہ احتجاجی پروگرام تقریباً دوماہ تک تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔ غالباً جولائی میں جہانگیر بدر میرے پاس بے نظیر بھٹو کا پیغام لے کر آئے کہ وہ لاہور پریس کلب میں آپ کے ساتھ تجزیہ پروگرام میں شریک ہونا چاہتی ہیں۔ میں 1986ءمیں دوسری بار لاہور پریس کلب کا سیکرٹری منتخب ہوا تھا اور میرے شروع کردہ تجزیہ پروگرام میں شرکت ہر سیاست دان کی خواہش ہوتی تھی مگر بے نظیر بھٹو کی جانب سے جس وقت اس خواہش کا اظہار کیا گیا اس وقت لاہور پریس کلب کے دونوں دھڑوں میں مفاہمت اور ایک دوسرے میں ضم ہونے کی وجہ سے پریس کلب کی باڈی ختم ہو چکی تھی اور ایک دو رکنی کمیٹی متحدہ پریس کلب کے احیاءکے انتظامات میں مصروف تھی چنانچہ میں نے اسی بنیاد پر بے نظیر بھٹو کو تجزیہ پروگرام کیلئے دعوت دینے سے معذرت کرلی کہ اس وقت کلب کا عملی طور پر کوئی وجود ہی نہیں۔ بے نظیر بھٹو نے میری اس معذرت پر افسوس کا اظہار کیا تو ہمارے دوست سید ممتاز احمد نے کمال مہارت سے ایک متبادل راستہ نکال لیا۔ انہوں نے اسی روز ”لاہور میڈیا فورم“ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی اور اسکے پلیٹ فارم پر ایک فائیو سٹار ہوٹل میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو مدعو کرلیا۔ اس پروگرام کی بھی ایک طویل داستان ہے جس پر کئی جبینیں شکن آلود ہوسکتی ہیں۔ 
محترمہ اپنے دوسرے دور حکومت میں حامد میر کی کتاب کی رونمائی کی تقریب میں شریک ہوئیں اور تقریر کے دوران یہ فقرہ اچھالا کہ ”یہ دو ٹکے کے صحافی میری حکومت گرانا چاہتے ہیں“۔تو میں نے کھڑے ہو کر انکی اس بات پر سخت احتجاج کیا اور کہا کہ جو دو ٹکے کے صحافی انکی حکومت گرانا چاہتے ہیں وہ انکے نام بتائیں ورنہ اپنی اس بات پر معذرت کریں۔ میرے اس احتجاج پر تمام صحافی تقریب کا بائیکاٹ کرکے ہال سے باہر آگئے چنانچہ بے نظیر بھٹو کو اپنے ان الفاظ پر معذرت کرنا پڑی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میری یادیں انکے بطور وزیراعظم برونائی اور انڈونیشیا کے دورے کے حوالے سے بھی وابستہ ہیں جو میرے سفرنامہ ”کس کی لگن میں پھرتے ہو“ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ وہ بے شک عملی جدوجہد والی قومی لیڈر تھیں جن کے اوصاف کا ایک زمانہ قائل ہے۔ وہ آج زندہ ہوتیں تو اپنے بلاول کو سیاست کے آسمان پر چمکتے ستارے کے طور پر دیکھ کر کتنی خوش ہوتیں جن کی محترمہ کے ہاتھوں سیاسی پرورش کے مناظر میں نے 2005ءمیں اس وقت دیکھے جب محترمہ نے اپنی اور آصف علی زرداری کی جلاوطنی کے دوران زرداری صاحب کو امام ضامن باندھ کر دبئی سے پاکستان واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا اور میرے سمیت کچھ اخبار نویسوں کو دبئی مدعو کیا تاکہ ہم زرداری صاحب کے دبئی سے لاہور تک شریک سفر ہو سکیں۔ بلاول کی عمر اس وقت 13، 14 برس کی ہوگی۔ آصف زرداری کی لاہور روانگی کے وقت بھی بے نظیر بھٹو بلاول کو اقتدار کی راہداریوں کے نشیب و فراز پر لیکچر دیتی رہیں۔ آج بلاول اپنے حکومتی اتحادی وزیراعظم کو آنکھیں دکھاتے ہوئے ان سے ان سے اپنے سیاسی راستے الگ کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں تو یقینناً یہ پیپلز پارٹی کو اکتوبر کے انتخابات میں اپنے الگ پارٹی تشخص کے ساتھ اتارنے کی تیاری ہے۔ ان کی یہ حکمت عملی ان کی والدہ کی شہادت کے دن تک کی سیاست سے کوئی مطابقت رکھتی ہے یا نہیں، اس کا آصف زرداری صاحب سے بہتر کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ بے شک سیاست کے دل میں کسی کے لئے کوئی درد نہیں ہوتا۔(ختم شد)

ای پیپر دی نیشن