قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : اپنے رب سے گڑ گڑاتے ہوئے اور آہستہ آہستہ دعا مانگو بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا “۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے عاجزی و انکساری اور زاری کرتے ہوئے آہستہ آواز سے دعا مانگیں۔حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” دعا عبادت کا مغز ہے “۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : ’ ’دعا ہی اصل عبادت ہے “۔ یہ بات قرآن حدیث میں مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے۔ دعا کا اصل عبادت ہو نا عین فطری ہے۔ کیو نکہ جب آ دمی خدا کے وجود کو اس کی صفات کمال کے ساتھ پکارتا ہے تو اسی کے ساتھ وہ یہ بھی دریافت کرتا ہے کہ خدا کے مقابلے میں میں بالکل بے حقیقت ہو ں۔خدا آقا ہے میں بندہ ہوں۔ خدا دینے والا ہے میں پانے والا ہو ں۔ خدا قادر ہے میں عاجز اور محتاج ہوں۔ یہ احساس اس کو فوراً ہی خدا کے سامنے دعا گو بنا دیتا ہے۔ دعا وہ سب سے بڑا رشتہ ہے جس کے ذریعے بندہ اپنے خالق حقیقی سے مربوط ہوتا ہے۔ دعا خدا اور بندے کے درمیان اتصال کا ذریعہ ہے۔ انسان جو کچھ پاتا ہے دعا سے ہی پاتا ہے۔
تما م اعمال کا مقصد آدمی کو خدا سے دعا کرنے والا بنا نا ہے تا کہ وہ خدا سے پانے والا بن جائے۔ مثال کے طور پر قرآن میں رمضان کے روزے رکھنے کا حکم دینے کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :” اور جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو میں بالکل نزدیک ہو ں۔ میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا مانگے۔ پس انہیں چاہیے کہ میرے حکم کی تعمیل کریں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ کہیں ہدایت پاجائیں “۔یہی بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان الفاظ میں کی : مانگو تو تم کو دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو پاﺅ گے۔ دروازہ کھٹکھٹا ﺅ گے تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا۔ کیونکہ جو مانگتا ہے اسے ملتا ہے ، اور جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے ، اور جو کھٹکھٹاتا ہے اس کے واسطے کھولا جاتا ہے۔دعا صرف کچھ الفاظ کی تکرار نہیں ہے ، دعا ایک عمل ہے ، بلکہ دعا سب سے بڑا عمل ہے۔
جس طرح حقیقی عمل بے نتیجہ نہیں رہتا اسی طرح حقیقی دعا کبھی بے نتیجہ نہیں رہتی۔جب کوئی بندہ حقیقی دعا کرتا ہے تو وہ گویا اپنے معاملہ کو خدا کا معاملہ بنا دیتا ہے اور جب کوئی معاملہ خدا کا معاملہ بن جائے تو کوئی بھی نہیں جو اس کو پورا ہونے سے روک سکے۔