جمعرات ، 3 ذوالحجہ 1444ھ، 22 جون 2023ئ

ضمانت منسوخی پر شاہ محمود قریشی اور اسد عمر عدالت سے فرار 
واہ کیا بات ہے جو لوگ وکٹری کے نشان بناتے ہوئے اگلے دروازوں سے عدالتوں میں فاتحانہ انداز سے داخل ہوتے ہیں۔ حامیوں کا نعرے لگاتا گروہ ان کے اردگرد ہوتا ہے۔ واپسی پر اگر ان کی ضمانت برقرار رہتی ہے یا منظور ہوتی ہے تو یہ شیر بن کر دھاڑتے ہوئے پریس کانفرنسیں کرتے ہیں۔ حکومت کو دن میں تارے دکھانے کی باتیں کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ضمانتیں منسوخ ہو جائیں تو وہی صورت حال سامنے آتی ہے جو گزشتہ روز لاہور میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں اس وقت سامنے آئی جب پی ٹی ئی کے دو بڑے رہنما اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کی ضمانتیں منسوخ ہوئیں تو دونوں تیزی سے اِدھر اُدھر دیکھے بغیر سر جھکائے ہوئے تیز تیز قدموں کے ساتھ تقریباً دوڑتے ہوئے کمرہ عدالت سے باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھ کر عدالت سے فرار ہو گئے۔ معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ بزرگ ہیں لگتا تھا نوجوان ہیں جو ایسی پھرتی دکھا رہے ہیں۔ ورنہ پھرتی تو فواد چودھری نے بھی بڑی دکھائی۔ مگر وہ چند قدم تیز دوڑتے ہوئے ہانپنے کانپنے لگے اور ایک مرتبہ تو لڑکھڑا کر گر بھی پڑے تھے۔ خبروں کے مطابق دونوں نے احتیاطاً کمرہ عدالت کے دروازے پر ہی کھڑے ہو کر فیصلہ سنا تاکہ فرار ہونے میں آسانی رہے۔ یہی دانشمندی ان کے کام آئی اگر کمرہ عدالت کے اندر ہوتے تو شاید انہیں آسانی سے باہر نکلنے کا موقع نہیں ملتا۔ دیکھتے ہیں اب یہ شکار اور شکاری کے درمیان بھاگ دوڑ کا کھیل کب تک جاری رہتا ہے۔ کون اس میں کامیاب ہوتا ہے اور کون بچ نکلتا ہے۔ سچ کہیں تو کھیل رچانے والوں سے زیادہ اب عوام اس کھیل میں دلچسپی لے رہے ہیں بقول اقبال دیکھنا ہے کہ 
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا 
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا 
٭٭٭٭٭
برطانیہ میں اس سال بھی دو عیدیں ہوں گی 
اس جدید دور میں جب سائنسی سہولتوں کی بدولت رویت ہلال کا تعین آسان ہو چکا ہے۔ تمام عالم عرب اور اکثر اسلامی ممالک اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ ہم برصغیر میں آباد مسلمانوں میں آج تک یہ مسئلہ متنازعہ ہے۔ اب یورپ میں یہاں برصغیر سے جانے والے مسلمانوں اور مبلغین کی بدولت وہاں بھی یہ مسئلہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ 
عیدالفطر ہو یا عیدالاضحی دیکھ لیں دونوں کے تعین میں وہی من مانی کی جا رہی ہے۔ مسلک کی بنیاد پر یا روایت ہلال کے حوالے سے اس سال پھر عیدالاضحیٰ بھی عید الفطر کی طرح دو ہوں گی۔ سنٹرل مسجد لندن کے اعلان کے مطابق بدھ کو اور دوسری تنظیم کے مطابق جمعرات کو۔ یوں ہم دیارِغیر میں بھی اپنا مذاق بنانے سے باز نہیں آتے اور لوگ ہم پر ہنستے ہیں کہ اتحاد امت کا درس دینے والے اپنی عید کا تہوار بھی اکٹھا نہیں منا سکتے۔ لندن یا برطانیہ میں کہہ لیں دو دن نماز عید ہو گی قربانی بھی علیحدہ علیحدہ ہو گی۔ ”کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں“ یہی سوال اس وقت بھی علامہ اقبال نے اُمت مسلمہ سے کیا تھا آج بھی یہی سوال اُمت مسلمہ سے کیا جا رہا ہے: 
 وہ کہتے ہیں:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں 
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں 
مگر اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج دنیا بھر میں شرمندہ و رسوا ہو رہے ہیں۔ تباہی و خلفشار کا شکار ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی تحلیل نجم سیٹھی فارغ، ذکا اشرف ، مصطفیٰ رمدے نامزد 
بالاخر وہی ہوا تھا جس کا انتظار وہ شہکار آ گیا۔ ذکا اشرف کیلئے حکومتی اتحادی آصف زرداری کی فرمائش پر 
”تو کالا جوڑا پا ساڈی فرمائش تے“ 
کے مصداق بالاخر پاکستان کرکٹ بورڈ کی چیئرمینی کی راہ ہموار کر دی گئی ہے۔ چڑیا والے بابا نجم سیٹھی اب بھولی بسری داستاں بن جائیں گے۔ ویسے انہوں نے 
بھولی ہوئی ہوں داستاں گزرا ہوا خیال ہوں 
جس کو نہ تم سمجھ سکے میں ایسا ایک سوال ہوں 
کہتے ہوئے پہلے ہی چیئرمین کی دوڑ سے باہر نکلنے کا اعلان کر دیا تھا۔ عقل مندی کا تقاضا بھی یہی ہوتا ہے کہ بندہ باہر کا راستہ دکھانے سے قبل خود ہی باعزت طور پر باہر نکل جائے ۔ کم از کم اسے وہ اپنا فیصلہ کہہ کر اس کا دفاع تو کر سکتا ہے۔ 
سو ذکا اشرف کے لیے اب راستہ صاف ہے مگر کیا وہ اب بہتر کارکردگی دکھائیں گے اور اپنے سابقہ دور میں کرکٹ میں جوئے کے حوالے سے عائد ہونے والے الزامات کے داغ دھو پائیں گے۔ ان کے سابقہ دور میں بہت سے کھلاڑی اور پی سی بی والوں پر جو الزامات لگے تھے ان کی گونج آج بھی باقی ہے۔ خدا کرے ذکا اشرف کا یہ دور پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے نئی کامیابیاں لائے اور نیا سیٹ اپ مبارک ثابت ہو۔ بدقسمتی یا خوش قسمتی سے ہمارے ہاں کارکردگی سے زیادہ پسند ناپسند اور سفارش کا زور چلتا ہے۔ اس وقت کرکٹ بورڈ کو سنبھالنا اور عالمی سطح پر بھارتی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ذکا اشرف کو معاملہ فہمی سے کام لینا ہو گا۔ یہی ان کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہو گا جس کی بدولت مخالفین اور ناقدین کے منہ بند ہو سکیں گے۔ 
٭٭٭٭٭
کینیڈا میں خالصتان تحریک کا پرجوش رہنما قتل 
بھارت کو اس رہنما سے بہت تکلیف تھی اس نے کینیڈا حکومت کو بھی درخواست دی تھی کہ اس کے خلاف کارروائی کی جائے اور اسے بھارت مخالف سرگرمیوں سے روکا جائے۔ مگر کیا کریں یورپ امریکہ اور کینیڈا میں مودی کی حکومت نہیں نہ وہاں بھارت کی طرح نام نہاد جمہوریت ہے۔ ان ممالک میں کسی کی پسند یا خواہش پر قانون حرکت میں نہیں آتا۔ بھارت کو اس وقت کشمیریوں اور سکھوں سے بہت تکلیف ہے جو بیرون ملک اپنی آزادی کی تحریکوں کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس سے بھلا یہ سب کہاں برداشت ہوتا اس لیے اب اس نے اسکی خفیہ تنظیموں نے عالمی سطح پر بدنام ٹارگٹ کلرز کی خدمات حاصل کی ہیں جو غیر ملک میں موجود بھارت مخالف آزادی کی تحریکیں چلا رہے ہیں ان کو قتل کیا جا سکے۔ ان کرائے کے قاتلوں نے کشمیریوں اور سکھوں کے متعدد رہنماﺅں کو قتل بھی کیا ہے۔ اب تازہ واردات کینیڈا میں ہوئی ہے۔ جہاں سکھوں کے پرجوش خالصتانی رہنما کو گوردوارے میں گولی ماری گئی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کے کرائے کے قاتل اور خفیہ ایجنٹ کس طرح تحریک خالصتان کا زورتوڑنے کے درپے ہیں۔ بھارت میں موجود سینکڑوں سکھ آزادی پسند خالصتانی کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور رہنماﺅں کو نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل کرایا جا چکا ہے۔ بیرون ملک بھی ایسی کئی وارداتوں سے اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ خالصتان کی تحریک کو دبا دے گا تو یہ اس کی بھول ہے۔ یہ 1947ءنہیں جب نہرو نے تارا سنگھ کو بےوقوف بنا کر خالصتان کے قیام کا موقع گنوا دیا۔ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کے بعد اب امرت پال سنگھ کی قیادت میں خالصتان تحریک نے سکھ نوجوانوں میں ایک نیا جوش و ولولہ پیداکیا ہے جو بیرون ملک تو عروج پر ہے۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن