پھالیہ کی ماں

اندر کی بات
شہباز اکمل جندران
پھالیہ کی عظیم ماں مستورہ بیگم شہر خموشاں کی مکین بن چکی ہیں۔ وہ مستورہ بیگم ہیں جو عظیم معلمہ کے طور پر پورے پھالیہ کا فخر تھیں۔ مس جعفری کے نام سے مشہور اور جانی جاتی تھیں۔ عید سے دوسرے دن اس دارِ فانی کو چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملیں۔ اُن کے جانے سے پورے پھالیہ شہر کی فضا سوگوار ہے۔ مس جعفری کے ہزاروں شاگرد اُن کی رحلت پر دل گرفتہ اور رنجیدہ ہیں۔
پھالیہ ___پنجاب کے ضلع منڈی بہاﺅالدین کا ایک قدیمی اور تاریخی شہر ہے جس کی آبادی مردم شماری کے اعدادو شمار کے مطابق 6لاکھ ہے۔ 326قبل مسیح جب سکندر اعظم نے ہندوستانی بادشاہ پورس کو شکست دی اور جنگ میں فتح کے بعد دریائے جہلم کو عبور کیا تو ایک مقام پر نیا شہر آباد کرنے کا فیصلہ کیا۔شہر کا نام اپنے پسندیدہ اور وفادار گھوڑے کے نام پر ”بوسیفالا“ رکھا۔ جو بعد میں تبدیل ہو کر ”پھالیہ“ کے نام سے مشہور ہوا۔ پھالیہ کو سکندرِ اعظم کے آبائی شہر ”پالا“ سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔
مس جعفری زندگی میں بہت سی مشکلات اور چیلنجز سے نبردآزما رہیں۔ بڑی باہمت خاتون تھیں۔ دوسروں کے لیے مثال۔ انہوں نے کبھی ہارنا نہیں سیکھا تھا۔ جو دل میں سما جاتا، پورا کر کے رہتیں۔مس جعفری کے پسماندگان کے لیے یہ کتنے اعزاز کی بات ہے کہ اس شہر کے کم و بیش ہر گھر میں کوئی نہ کوئی فرد ایسا ضرور ہے جومس جعفری کا شاگرد ہے
محل وقوع کے اعتبار سے پھالیہ کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ شہر گجرات، منڈی بہاﺅالدین، سرگودھا اور حافظ آباد کے درمیان واقع ہے۔ پھالیہ میں جتنے بھی گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ہیں، مس جعفری نے کم و بیش سب میں بطور ٹیچر، نائب ہیڈ مسٹریس اور ہیڈ مسٹریس فرائض سرانجام دئیے ہیں۔ پڑھانے اور علم سکھانے کا اُن کا انداز ایسا ہوتا تھا کہ دل میں سما جاتا۔ جنرل نالج پر بھی سیر حاصل گفتگو کرتیں جس سے سٹوڈنٹس کو دنیا کے بہت سے علوم میں رہنمائی حاصل ہوتی۔ اُن کی شبانہ روز محنت کا ثمر ہے کہ آج پھالیہ کی بیٹیاں زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔
مس جعفری کے شاگردوں میں جج، ڈاکٹر، انجینئر، وکیل ، کامیاب بزنس مین، مختلف نجی و سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ہر درجے کے چھوٹے بڑے ملازم اور استاد شامل ہیں۔ مس جعفری 1953ءمیں پھالیہ کے تاریخی قصبہ ”بیلاں“ میں کپڑے کے ایک تاجر فضل حسین جوئیہ کے گھر میں پیدا ہوئیں۔ یہ وہ دور تھا جب لڑکیوں کو تعلیم دینے کا رجحان بہت کم تھا۔ میٹرک تک تعلیم کو بہت کچھ سمجھا جاتا تھا۔ مس جعفری کے والد بھی اس انتہائی معیوب اور ناپسندیدہ خیال کے حامی تھے۔ وہ کسی طرح بھی بیٹی کی زیادہ تعلیم کے حق میں نہ تھے۔
تاہم ان تمام تر مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود مس جعفری کا فیصلہ تھا کہ وہ نہ صرف پڑھیں گی بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بن کر پھالیہ کا نام روشن کریں گی۔ پھر انہوں نے ایسا کر دکھایا۔ نہ صرف ایم اے کیا بلکہ بی ایڈ کرنے والی خواتین میں سرفہرست نظر آئیں۔ان کی ابتدائی تعلیم کا کریڈٹ اُن کے بڑے بھائی چودھری محمد فیروز کو جاتا ہے جو بطور انسپکٹر لاہور پولیس سے ریٹائرڈ ہوئے، اب مرحوم ہو چکے۔
مس جعفری بتایا کرتی تھیں کہ اُن کے گاﺅں میں بجلی نہیں تھی۔ اس لیے زمانہ¿ طالب علمی میں انہیں رات کو پڑھنے کے لیے لالٹین کا استعمال کرنا پڑتا۔ لالٹین کی روشنی میں وہ دیر تک پڑھتیں اور اپنا ہوم ورک مکمل کرتیں۔ روشنی کے باعث والد کی نیند میں خلل پڑتا تو لالٹین کی اوٹ میں کتاب رکھ دیتیں تاکہ روشنی والد کی نیند میں مخل نہ ہو۔
والد فضل حسین جوئیہ بیٹی کی تعلیم ہی نہیں، ملازمت کے بھی حق میں نہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مس جعفری کے بھرپور اصرار اور کوشش کے باوجود والد اور گھر والوں نے میٹرک کے بعد انہیں ریگولر سٹوڈنٹ کی حیثیت سے اپنا تعلیمی سلسلہ آگے جاری رکھنے کی اجازت نہ دی۔ مس جعفری نے ہارمانی ، نہ ہمت ہاری۔ وہ گاﺅںمیں اپنے اردگرد جب تعلیم سے بے بہرہ خواتین اور بچیوں کو دیکھتیں تو بہت دکھ ہوتا۔ وہ معاشرے میں خواتین کے لیے تعلیم کی اہمیت سے آگاہ تھیں۔ یہی وہ آگہی تھی جو انہیں ہر وقت بے چین رکھتی۔ وہ جانتی تھیں کہ تعلیم کے بغیر آنے والی نسلیں ترقی نہیں کر سکتیں۔ یہی وجہ تھی کہ اپنے شہر اور علاقے کی بچیوں کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھیں۔ جس کی ابتداءانہوں نے اپنے گھر واقع ”بیلاں“ میں ٹیوشن سنٹر قائم کر کے کی۔ جہاں لڑکیوں کو ہی نہیں، پرائمری سطح کے لڑکوں کو بھی مفت تعلیم دی جاتی تھی۔
والد فضل حسین جوئیہ اور دیگر اہلخانہ نے بھی جب مس جعفری کے جذبے اور جنون کو دیکھا تو اُن کے سامنے سرنگوں ہو گئے۔ مس جعفری نے ٹیوشن سنٹر میں بچوں کو مفت تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور شادی سے قبل پرائیویٹ امیدوار کے طور پر انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کر لیا۔
مس جعفری کی اصل زندگی شادی کے بعد شروع ہوئی۔ 19برس کی عمر میں شادی کے بعد اپنے قصبہ (بیلاں) سے پھالیہ آئیں تو شوہر تجمل حسین جوئیہ نے مس جعفری کو ہر معاملے میں بھرپور اعتماد دیا۔ ناصرف بطور ٹیچر ملازمت کی اجازت دی بلکہ اُن کی سرکاری ملازمت کے حصول میں بھی حتمی کردار ادا کیا۔
مس جعفری نے اپنے سب بچو ں کو اچھی تعلیم دی۔ اُن کی دونوں بیٹیاں ایم اے پاس اور چھوٹا بیٹا علی رضا جوئیہ ایم فل کیمسٹری ہے جبکہ بڑا بیٹا رضوان تجمل جوئیہ پولیس میں بھرتی ہونے کے باعث گریجویشن سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ سال 2020ءمیں بیٹا علی رضا دوستوں کے ہمراہ خیبرپختونخوا کے علاقے کمراٹ (دیر اپر) گیا جہاں اچانک دریا میں گرنے سے جاں بحق ہو گیا۔ 29سالہ جوان بیٹے کی موت نے مس جعفری کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ وہ اکثر کہتی تھیںکہ اب میں زیادہ دن نہیں جی سکوں گی۔ کیونکہ میرا جگر زخمی ہو چکا ہے۔ خدا کی قدرت کہ مس جعفری جگر کے کینسر سے ہی اللہ کو پیاری ہوئیں۔
مس جعفری تعلیم کی بہت بڑی حامی تھیں۔ خصوصی طور پر بچیوں کی تعلیم کے زیادہ حق میں تھیں۔ سرکاری نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہوں نے گھر پر لڑکیوں کو مفت تعلیم دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ سیاسی طور پر بھٹو کے افکار کے زیادہ قریب تھیں۔ انہیں پیپلز پارٹی کے نظریات کی زبردست حامی سمجھا جاتا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے بہت زیادہ متاثر تھیں۔ خواتین کو قومی دھارے میں لانا مس جعفری کا خواب تھا۔ وہ منڈی بہاﺅالدین میں پاکستان پیپلز پارٹی خواتین ونگ کی صدر بھی رہیں۔ انہیں خواتین کی مخصوص نشستوں پر کونسلر بھی منتخب کیا گیا۔ حُب علی اُن کی شخصیت کا خاصہ تھا۔ پھالیہ میں انجمن کنیزان زینب کی صدر بھی رہیں۔جہاں انہوں نے شیعہ کمیونٹی کے لئے لاجواب خدمات انجام دیں
مس جعفری کہتی تھیں پاکستانی معاشرے میں مرد سے زیادہ عورت کو تعلیم کی ضرورت ہے کیونکہ مرد اکیلا تعلیم حاصل کرتا ہے لیکن ایک تعلیم یافتہ عورت پورے خاندان اور آنے والی نسلوں کو ایجوکیٹ کرتی ہے۔ پڑھی لکھی ماں کی گود سے ہیرے اور اَن پڑھ کی گود سے پتھر پروان چڑھتے ہیں جو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔
مس جعفری آج ہم میں نہیں لیکن ان کی جلائی شمعیں آج بھی روشن ہیں اور روشن رہیں گی۔ ان کی وفات اہلیان پھالیہ کے لیے بڑا نقصان ہے۔ ان کے جانے سے پیدا ہونے والا خلا شاید برسوں پورا نہ ہو سکے۔ میں بھی شاید اُن کے پیار اور شفقت کو نہ بھلا سکوں کیونکہ اُن سے میرا رشتہ ایک ساس اور داماد کا تھا۔علی رضا کی وفات کے بعد وہ مجھے علی رضا کہتی تھیں اور سگا بیٹا ہی سمجھتی تھیں۔ وہ عظیم تھیں۔اہلیان پھالیہ اور ہماری دعاﺅں اور یادوں میں ہمیشہ رہیں گی۔الوداع عظیم ماں ، الوداع۔

ای پیپر دی نیشن