قارئین ہمارے معاشرے میں خواتین بالخصوص بہنوں کے حقوق کی حق تلفی بڑے جگرے سے کی جاتی ہےکہ ضمیر ملامت تک نہیں کرتا۔ یہ بات تو ایک جانب رہی لیکن نادانی کے باعث گھر سے مفرور لڑکیوں کی سماج میں جگہ اتنی تنگ کر دی جاتی ہے کہ انکا مارے ڈپریشن کے سانس نہیں نکل سکتا۔ بلاشبہ یہ ایک انتہائی غیر اخلاقی حرکت ہے لیکن معاف کرنے کی روش سے صحت مند معاشرے کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ ایک خاتون کی آپ بیتی ہی تمامتر صورتحال کو واضح کر دے گی۔ فارینہ بیگ لاہور کی رہائشی اور آئی ٹی دفتر میں کام کرتی تھی۔ اس شخصیت کو دیکھ کر ہر کوئی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا لیکن فارینہ کسی مرد کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی تھی۔ فارینہ کے بھائیوں نے اپنی اکلوتی بہن کا رشتہ اس کی رضا پوچھے بغیر اپنی برادری میں طے کرکے گھر داماد رکھنے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ فارینہ کے والد کامیاب بزنس مین تھے اور ان کی اچھی خاصی پراپرٹی تھی۔ فارینہ کے بھائیوں کا نقطہ نظر یہ تھا کہ گھر ہی بیٹی گھر ہی رہے گی مزید برآں فارینہ سے کیا پوچھنا وہ تو عام لڑکیوں کی طرح نہیں۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ انکی بہن ایک میڈیکل کمپنی کے ریپریزنٹیٹو سے شادی کا مصمم ارادہ رکھتی ہے۔ فارینہ یہ سن کر ٹینشن فیز میں چلی گئی۔ گھر والوں سے عمدا جھوٹ بولا کہ اس کے دفتر میں پارٹی ہے اور پارٹی کی غرض سے وہ اپنے دو تین جوڑے لیکر جا رہی ہے تاکہ جو اس کی کولیگز کو پسند آیا وہ وہی جوڑا پہنے گی۔اگلے روز دفتر گئی اور مقررہ وقت تک واپس نہ پہنچی اس کے گھر والوں نے بہت تلاش کیا مگر بے سود۔ گھر والوں نے اگلے روز پولیس اسٹیشن پہنچ کر درخواست دائر کر دی۔ فارینہ اپنے واش روم کی بیک سائیڈ پر ایک کاغذ چسپاں کر گئی تھی جس پر واضح درج تھا کہ وہ گھر سےکوئی قیمتی چیز نہیں لے کر جا رہی۔ وہ کسی کو پسند کرتی ہے اور اس نے کورٹ میرج کا ارادہ کر لیا ہے۔ بدنامی کے ڈر سے اس کے بھائیوں نے تھانے میں دی درخواست کی پیروی نہ کی کہ اف لوگ کیا کہیں گے۔
وقت گزرتا رہا اور فارینہ کے ہاں کورٹ میرج کے ڈیڑھ سال بعد بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ بیٹا جب 6 ماہ کا ہوا تو اخراجات منہ چڑھانے لگے۔ فارینہ نے ہمت باندھی اور قلیل تنخواہ پر سکول ٹیچر لگ گئی۔ جب تیسرے بچے کی پیدائش ہوئی تو مالی حالات مزید سنگین ہوگئے۔ ستم ظریفی کہ اسکے شوہر کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔ روز کی چپقلش کے باعث فارینہ کے شوہر نے بڑا مطالبہ کر دیا کہ جاو¿ جا کر اپنے بھائیوں سے جائیداد میں اپنا حصہ طلب کرو تاکہ میں کچھ کاروبار کر سکوں ورنہ میں تم لوگوں کو چھوڑ کر غائب ہو جاو¿ں گا۔ یہ سن کر فارینہ سکتے میں آگئی اور شوہر سے کہنے لگی کہ" میں عزت میں ان کی حصہ دار نہیں بنی تو آٹھ سال بعد جائیداد میں کیسے حصے دار بن جاو¿ں ؟"۔
ڈرتی ڈرتی وہ اپنی منہ بولی خالہ کے ہاں راولپنڈی گئی جن سے ملاقات کے بعد اس پر یہ راز منکشف ہوا کہ اس کے والد نے گھر سے بھاگنے کی پاداش میں اسے منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد سے نہ صرف عاق کر دیا تھا بلکہ اس سے کوئی تعلق روا نہ رکھنے کا اعادہ بھی کر لیا تھا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک اشٹام فروش سے بیان حلفی بھی لکھوا کر اخبارات میں اشتہار دے دیا تھا۔ منہ بولی خالہ نے مزید بتایا کہ اس کے والد کو اس کا صدمہ برداشت نہیں ہو سکا اور سال ہوگیا ہے وہ اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ فارینہ یہ سن کر دبے پاو¿ں واپس چلی آئی۔ اپنے والد کو یاد کرکے زوروقطار رونے لگی۔بھاگنے کا گھناو¿نا قدم جو اس نے اٹھایا تھا وہ اس کے گلے کی وہ ہڈی بن گیا تھا جسے نہ وہ اگل سکتی تھی اور نہ ہی نگل سکتی تھی۔ شوہر نے پھر فارینہ کو سمجھایا کہ ہم نے بالغ اور عاقل ہوتے ہوئے اپنی مرضی سے شادی کی ہے ، قانون کا سہارا لیا ہے۔ بس اپنا حصہ مانگو ؟
فارینہ گوں مگوں کی صورتحال سے دوچار ہو گئی۔ بالآخر وہ کورٹ پہنچ گئی تاکہ کسی وکیل سے رابطہ کیا جاسکے۔ فارینہ نے وکیل کو پوری روداد سنائی۔ وکیل اسکی مجبوری کو بھانپ گیا اوربھاری فیس وصول کرنے کی غرض سے تسلی و تشفی دینے کی بجائے مسائل سے معمور کیس کے دوران پیش آنے والی صعبتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ معاشرے میں اس وقت تمہارا مقام گرا ہوا ہے ، ہو سکتا ہے تمہارے بھائی تمہیں غیرت کے نام پر قتل ہی کر دیں البتہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے میں تمہارے مرنے کے بعد بھی تمہارا ترکہ تمہارے بچوں کو دلوانے کی سر توڑ سعی کروں گا۔ فارینہ کا یہ کہنا ہے کہ جب وکیل مجھ سے یہ باتیں کر رہا تھامجھے ایسا لگا کہ گویا میں ذہنی طور پر کہیں کی کہیں پہنچی ہوں۔اسی اثنا میں میری نظر ایک خاتون پر پڑی جس نے مجھے اشارہ کیا کہ یہاں سے اٹھ جاو¿ اور کسی اور وکیل سے رابطہ کرو۔
فارینہ پھر کسی اور وکیل کے پاس گئی اور تمام داستان سنائی اس پر وکیل صاحب نے کہا کہ دیکھو ہمارے معاشرے میں گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کو غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔ قانونی اور شرعی طور پر عاق نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ چاہے آپ کو اپنے اس فعل سے خود سے ہی نفرت کیوں نہ ہو جائے۔ رب تعالی نے آپ کا حصہ مقرر کیا ہے۔ آپ اسے کورٹ میں چیلنج کر سکتی ہیں۔ یہ سن کر فارینہ کا سر شرم سے جھک گیا اس نے فیصلہ کیا کہ صبح کو سکول پڑھائے گی اور شام کو ٹیوشن اور پھر نائٹ شفٹ میں آن لائن کام کرکے اپنے بچوں کی پرورش کرے گی مگر شوہر بضد رہا۔
اسکے شوہر نے عدالت میں فارینہ کی جانب سے اس کے والد ،بھائیوں کو فریق بناتے ہوئے قانون وراثت کے تحت سول کورٹ میں مقدمہ درج کر دیا۔ فارینہ کے بھائیوں کو جب نوٹس پہنچا تو وہ اچنبھا رہ گئے کیونکہ آٹھ سالوں سے فارینہ کی کوئی خبر نہیں تھی یہ سن کر ماں تڑپ اٹھی۔ کورٹ میں جب فارینہ کی والدہ اور بھائی پیش ہوئے تو ان پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ فارینہ نے یہ قدم نہیں اٹھایا بلکہ اسکے شوہر نے معاشی بدحالی کے پیش نظر فارینہ کو مجبور کیا ہے۔ چنانچہ فارینہ کے بڑے بھائی نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فارینہ کے سر پر ہاتھ رکھ دیا اور اس کا شرعی حصہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔