بجٹ میں کوئی پالیسی نہیں، صرف ٹیکس لگانے پر توجہ، آئی پی  پیز معاہدوں پر نظرثانی کرنا ہو گی: سینیٹرز

اسلام آباد (خبرنگار) جمعہ کے روز ایوان بالا کا اجلاس 23 منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی چیئرمین سینٹ سیدال خان کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ پر بحث ہوئی۔ سینیٹر بونجو بھیل نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ آج بینظیر بھٹو شہید کا جنم دن ہے۔ محترمہ نے پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی، انسانی حقوق کے لئے طویل جدوجہد کی۔ ان کی خدمات کے لئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا جائے۔ ڈپٹی چیئرمین نے کہاکہ پورے ایوان کی جانب سے بینظیر بھٹو شہید کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔  ثواب کے لئے دعائے مغفرت کرائی گئی۔ دعا سینیٹر ساجد میر نے کرائی۔ سینیٹر بلال احمد خان نے اظہار خیال نے کہاکہ ایف بی آر نے ٹیکس دائرہ کار بڑھانے کے لئے کوئی ٹھوس پالیسی نہیں اپنائی، اس بار بجٹ میں نو ہزار ارب روپے ٹیکس محصولات کا ہدف رکھا گیا ہے حکومتی اخراجات گیارہ ہزار ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ اگر حکومتی اخراجات اسی طرح بڑھتے رہے تو سو سال میں بھی ہم معاشی استحکام حاصل نہیں کر پائیں گے۔  پاکستان سونے تابنے لوہے سمیت قدرتی وسائل سے مالامال ہے،76 برسوں میں ہم کان کنی کو صنعت کا درجہ نہیں دے سکے۔ تعمیراتی شعبے سے 72  صنعتیں وابستہ ہیں لیکن ہم نے اس شعبے کو بھی صنعت کا درجہ نہیں دیا۔ ہم اپنی معدنیات مٹی کے بھاؤ دوسروں کو بیچ رہے ہیں۔ ریکوڈک میں سونے تانبے کے ذخائر اس کی بڑی مثال ہے۔ اگر ہم خود ان ذخائر کو ڈویلپ کر پاتے تو ہم ایک ارب ڈالر کی بھیک کے لئے در در کی ٹھوکریں نہ کھاتے۔ نئی نسل کو بھی بھکاری بنائیں گے۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو معاشی بحالی سے متعلق واضح روڈ میپ دینا ہو گا۔ سینیٹر قاسم مندوخیل نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا مہنگی بجلی کی وجہ سے پاکستانی صنعت کار کارخانے چلانے سے قاصر ہیں، فیصل آباد میں ٹیکسائل کے ستر کارخانے تھے اب صرف تیس رہ گئے ہیں۔ امیر ولی الدین چشتی نے بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ یہ بہت ہی لاچار اور مجبوریوں والا بجٹ ہے، یہ بجٹ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر بنایا گیا ہے، ایک صحتمند اور تعلیم یافتہ معاشرہ ہی ہمیں آگے لے جا سکتا ہے۔ پہلی بار تعلیم اور صحت کے شعبے پر بھاری ٹیکس عائد کر دیا گیا۔ مڈل کلاس پر بھاری ٹیکس لگا کر تباہ کر دیا گیا۔ سینیٹر ندیم احمد بھٹو نے بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ  معیشت کے حوالے سے میثاق معیشت کرنا ہو گا۔ آئین کے تحت ہر پانچ سال میں این ایف سی ایوارڈ کا اعلان ضروری ہے۔ آخری این ایف سی ایوارڈ پیپلزپارٹی دور حکومت میں کیا گیا۔ سب سے زیادہ ریونیو سندھ دیتا ہے۔ کراچی منی پاکستان ہے، کراچی سب کو روزگار دیتا ہے۔ پی ایس ڈی پی میں صوبوں کے لئے فنڈز مختص کرنے کا عمل غیر منصفانہ ہے۔ سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں آئی پی پیز کے ساتھ اپنے معاہدوں کا دوبارہ جائزہ لینا ہو گا۔21 سو ارب روپے ہم کپیسٹی ادائیگیوں کی مد میں آئی پی پیز کو دیتے ہیں۔ ہمیں بجلی کے ان مہنگے معاہدوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ آئی پی پیز کے ساتھ مہنگی بجلی معاہدوں کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔  سات ہزار ارب سے زیادہ بجٹ خسارہ ہے جو مہنگے قرضوں سے پورا کیا جاتا ہے۔ ہمیں وفاق میں غیر ضروری وزارتوں کو ختم کرنا ہو گا۔ سینیٹر ساجد میر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہر سال ایک طرف سے بجٹ کو بہترین اور دوسری طرف سے بدترین کہا جاتا ہے۔ بجٹ پر متوازن بحث نہیں ہوتی ہے۔ جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں ان حالات میں بجٹ بنا لینا ہی بڑی بات ہے۔ سینیٹر شہادت اعوان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ  پی ایس ڈی پی پر حکومت نے ہماری جماعت کے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی ہے۔ پیپلزپارٹی  نے مسلم لیگ ن کا  اس شرط پر ساتھ دیا تھا کہ پی ایس ڈی پی منصوبوں میں مشاورت کی جائے گی۔ پی ایس ڈی پی میں ہمارے ساتھ کوئی مشاورت نہیں ہوئی۔ ایک طرف حکومت فنڈز نہ ہونے کا رونا روتی ہے دوسری جانب کئی نئے منصوبے پی ایس ڈی پی میں شامل کر دیئے گئے۔ سینیٹر ذیشان خانزادہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں اپنے نجی شعبے کو مضبوط کرنا ہو گا۔ حکومتوں کا کام کاروبار چلانا نہیں بلکہ پالیسی سازی ہوتا ہے۔ روزگار کے مواقع نجی شعبہ ہی پیدا کرتا ہے۔  سینیٹر افنان اللہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ یہ درست ہے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں کاش یہ بات اس وقت یاد ہوتی جب آپ امپائر کی انگلی کھڑی کرنے کا کہا جاتا تھا۔ فیصل واوڈا نے کہا بجٹ ڈنکے کی چوٹ پر پاس ہوگا اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ ڈپٹی چیئرمین نے چیف سیکرٹری اور آئی جی، وزارت داخلہ بلوچستان سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہاکہ وفاقی وزارت داخلہ ایف سی بھی رپورٹ طلب کر کے اگلے سیشن میں پیش کرے۔ بعدازاں سینٹ اجلاس پیر کی شام پانچ بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن