پاکپتن کی ڈسٹرکٹ جیل میں 10 سالہ قیدی بچے کی پراسرار طور پر موت کا واقعہ رونما ہوا ہے۔ جس نے جیل سیکیورٹی پر سوالات اٹھادیے ہیں۔ ساتھ ہی یہ سوال بھی کیا جارہا ہے کہ آخر ایک نابالغ قیدی کو بچوں کی جیل میں کیوں نہ رکھا گیا؟
جیل ذرائع کے مطابق ڈسٹرکٹ جیل میں قیدی افضل ولد ریاض کی پراسرار موت کا واقعہ کچھ دیر قبل پیش آیا۔ دو دن قبل جیل ملازمین چکر چیف ارشد جوئیہ، علی عمران، رائے ظفر نے 10 سالہ قیدی کو 7 بلاک میں بند کروایا تھا۔ 7 بلاک میں بند قیدی افضل نے خودکشی کی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے قیدی کی لاش 7 بلاک میں رسی (نالے) کیساتھ لٹکی ہوئی ملی۔ ہلاک ہونے والے قیدی کی لاش کو تاحال اتارا نہیں گیا۔ذرائع نے بتایا ہے کہ جیل حکام ڈسٹرکٹ کورٹ میں لاش کا ملاحظہ اور پوسٹ مارٹم کی اجازت لینے کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔عوام سوال کررہے ہیں کہ کیسے ایک 10 سالہ بچہ جیل کے اندر خودکشی کرسکتا ہے؟ کیوں قانون کے مطابق ایک 10 سالہ بچے کو بچوں کی جیل میں نہیں رکھا گیا؟یاد رہے پاکستان میں اٹھارہ سال سے کم عمر مجرم بچوں سے متعلق جووینائل جسٹس ایکٹ 2018 نامی نیا قانون نافذ ہو چکا ہے جس کے تحت دس سال سے کم عمر کا بچہ کوئی بھی جرم کرے تو وہ جرم تصور نہیں ہوگا اور دس سے اٹھارہ سال کی عمر کے بچوں کے جرائم کا فیصلہ اس نئے قانون کے تحت کیا جائے گا۔
جووینائل جسٹس ایکٹ 2018 کیا ہے؟اس قانون کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو بالغوں کی جیل میں نہیں رکھا جائے گا بلکہ انہیں بحالی اور اصلاح کے مراکز ’ جووینائل ری ہیب سنٹرز ‘میں رکھا جائے گا جس دوران ان کی تعلیم کو بھی جاری رکھا جائے گا اور انہیں اپنی عمر کے مطابق پیشہ ورانہ ہنر بھی سکھائے جائیں گے۔
تفتیشی مدت کے دوران ان کو 14 دن سے زیادہ حراست میں نہیں رکھنا چاہئے۔ے ایس اے 2018 کے سیکشن 6 کے مطابق پولیس کی تحویل میں کسی بھی بچے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے وقت ہتھکڑی نہیں لگائی جانی چاہیے۔