دھوپ کھولو! چاندنی چھلکاؤ! برساتیں کرو!

آج کل سفید فام صحافی پاکستانی عوام کا چال چلن اور رہن سہن دیکھ کر بہت حیرانی اور پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں! وہ پاکستانی شہروں‘ قصبوں‘ گاؤں اور سڑکوں کے ساتھ ساتھ بھاگتی برقی ترسیلی تاریں دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہے ہیں اور ہر طرف دو رویہ جھلملاتے کھیت انہیں حیران کے ساتھ ساتھ پریشان بھی کر رہے ہیں!
جان سولیکی کے اغوا کار کیا چاہتے ہیں؟ یہ ہم نہیں جان پائے کیونکہ اس بارے میں کوئی کچھ بتانے کیلئے تیار نہیں مگر ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ وہ پاکستان کیلئے ایک ’صحرائی ملک‘ ہونے کا تاثر ضرور مستحکم کر رہے ہیں‘ پاکستانی قوم کے ’غیر مہذب‘ ہونے کے ’تاثر‘ میں نئی گہرائی ضرور پیدا کر رہے ہیں! جناب رحمان ملک سے بھی ’بات چیت جاری ہے‘ سے آگے کچھ نہیں بتلا رہے! ڈرون حملوں کیلئے فضا سازگار کرنے کے ایجنڈے کے ساتھ سرگرم عناصر جناب ڈک چینی کے ایجنڈے پر جناب جارج بش اور جناب پرویز مشرف کی طرح آنکھیں بند کرکے بھاگے چلے جا رہے ہیں!
’کیا ہمارے ہاں چوروں اور ڈاکوؤں کیلئے کوئی ’تھانہ‘ نہیں کوئی ’اصلاح خانہ‘ نہیں؟‘ ایک سفید فام ڈرامہ ڈائریکٹر نے ایک مقامی سفید فام ڈرامہ ڈائریکٹر سے پوچھا!’اصلاح خانے‘ تو نہیں البتہ ’اسلحہ خانے‘ بہت ہیں اور ان کا دفاتر میں موجود اسلحہ تک ’خانہ ساز‘ ہے! اور ’خانہ ساز سے‘ کی طرح فخریہ پیش کیا جاتا ہے! یقین کریں کہ ہمارے ملک کا حال’ آپ کے ملک کے ماضی سے زیادہ مختلف نہیں رہ گیا!‘’وہ کیسے؟‘ سفید فام ڈرامہ ڈائریکٹر نے پوچھا!’وہ ایسے! ایک ’یانکی‘ سرائے میں داخل ہوا اور کاؤنٹر پر پہنچ کر بیئر کا گلاس طلب کیا اور پھر سرائے میں مختلف میزوں کے گرد کرسیوں پر بیٹھے ’بیئر نوشوں‘ کی طرف دیکھتے ہوئے ایک میز پر چار یانکیوں کو قہقہے لگاتے دیکھ کر ادھر متوجہ ہوا اور کاؤنٹر پر کھڑے بار ٹینڈر سے پوچھا‘ یہ بڑے بڑے بالوں والا کون ہے؟ ’چاروں کے بال بڑے ہیں!‘ بار ٹینڈر نے ادھر دیکھتے ہوئے ہولے سے کہا ’وہ جو پاگلوں کی طرح ہنس رہا ہے!‘ ’مہمان یانکی‘ نے ’میزبان یانکی‘ سے کہا!
’چاروں پاگلوں کی طرح ہنس رہے ہیں!‘ میزبان نے آہستہ سے کہا’وہ جو کالی قمیض اور کالی پینٹ کے ساتھ پستول لٹکائے بیٹھا ہے!‘ مہمان نے نشانی بتائی! ’چاروں کا لباس ایک سا ہے!‘ میزبان نے کہا!ٹھاہ! ٹھاہ! ٹھاہ! مہمان ’یانکی‘ نے اپنا پستول چلاتے اور ’تین یانکی‘ زمین پر گراتے ہوئے پوچھا‘ ’یہ! میں اس کے بارے میں پوچھ رہا تھا!‘ ’یہ!‘ میزبان یانکی نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا ’مجھے کچھ پتہ نہیں!‘مہمان نے ’ون فار دی روڈ‘ طلب کرتے ہوئے چوتھے کو بھی زمین پر گرا دیا اور پستول کی نالی سے اٹھتا دھواں پھونک مار کر اڑاتے ہوئے پستول واپس رکھ لیا‘ مجھے ایسے لوگوں سے خدا واسطے کا بیر ہے!‘
’کیا بات ہے؟‘ سفید فام ڈائریکٹر ہنستے ہوئے بولا‘ اس لطیفے میں ’ڈرامائی عنصر‘ کمال کا ہے!‘
ہم نے یہ گفتگو سنی تو سوچ میں پڑ گئے کہ ’ڈرامائی عنصر‘ کی کمی تو ’بین الاقوامی سیاسی پیش رفت‘ میں بھی بہت زیادہ ہے! فلم بار بار کٹ ہو کر ’جڑواں میناروں کی تباہی‘ افغانستان میں تورا بورا پر بم باری‘ ’ڈیزی کٹر‘ کی برسات اور ڈرون حملوں کی ’باقیات‘ پر آتے ہیں اور دیکھنے والے اب آگے کیا ہو گا؟ کے آگے کچھ سوچھنے کے تیار ہی نہیں رہ جاتے‘ حالانکہ ’اب آگے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ وہ سوال ہے‘ جس پر سب کو سر جوڑ کر بیٹھ جانا چاہئے تھا! آج نہیں بہت پہلے!قائداعظمؒ کا پاکستان دو لخت کرنے والے اب باقی ماندہ ’پاکستان‘ کے ساتھ کیا کرنے والے ہیں؟ اور ہمیں ان کا راستہ روکنے کیلئے کیا کچھ کرنا ہو گا؟ یہ ہیں وہ بہت سنجیدہ سنجیدہ سوال جنہیں کامیابی سے حل کرنے کی خاطر ہمیں ذہن پر بہت زیادہ زور دینا ہو گا!
ہونٹ بند کرکے آنکھیں اور کان کھولنا ہوں گے! دین و دانش کے امتزاج سے راہ تراشنا ہو گی کہ ’تعدیل اور توازن‘ کے بغیر طبیعت میں اعتدال پیدا کرنے والا ’گداز‘ جنم ہی نہیں لے پاتا!
جناب احمد مشتاق نے کیا خوب کہہ رکھا ہے:
دل کی مٹھی میں ہیں سارے موسموں کی چابیاں
دھوپ کھولو‘ چاندنی چھلکاؤ برساتیں کرو

ای پیپر دی نیشن