اسلام آباد (رانا مسعود حسین / نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت نیوز) وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف عدالت عظمیٰ میں توہین عدالت کے مقدمہ میں ان کے وکیل اعتزاز احسن نے موجودہ بنچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرد جرم عائد کرنے سے پہلے سخت آبزرویشن دینے والے اور اظہار وجوہ کا نوٹس دینے والے ججز اس مقدمے کی سماعت نہیں کر سکتے، آرٹیکل 10 اے کے تحت مقدمے کی کارروائی کا حکم دینے والا جج بھی مقدمے کی سماعت نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف بنچ نے اعتزاز احسن سے کہا ہے کہ آپ بنچ پر اعتماد کریں اگر سزا ہوئی تو قانون کے مطابق ہو گی۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ مفروضوں پر نہیں جانا چاہئے، جرم ثابت ہو جائے تو پھر بے شک پھانسی پر چڑھا دیں، ان کے م¶کل کے خلاف عائد فرد جرم منفی نوعیت کی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کسی بھی ایڈوائس کے بغیر خط لکھنے کے معاملے پر وزیراعظم کی جانب سے جواب جمع کرا دیا ہے۔ جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سات رکنی بنچ نے وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ بی بی سی کے مطابق اعتزاز احسن نے بنچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ مقدمہ ”مس ٹرائل“ کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے سے پہلے ہونے والی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے چھ آپشنز پیش کئے تھے لیکن بنچ نے سب سے سخت آپشنز چنتے ہوئے وزیراعظم گیلانی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔ حکم نامے کے آخری آپشن کو استعمال نہیں کیا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت نے پہلے سے ہی اپنا ذہن بنا رکھا ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ میرا استدلال ہے کہ جب تک زرداری صدر ہیں، فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا، سابق اٹارنی جنرل اور سابق سیکرٹری قانون نے خط نہ لکھنے کی ایڈوائس دی، ان دونوں میں تو کوئی توہین عدالت کا ملزم نہیں، اکیلے وزیر اعظم کو توہین عدالت کا مجرم ٹھہرایا گیا۔ وزیراعظم کے جواب کو غلط سمجھا گیا، میں فیصلے پر نظرثانی نہیں مانگ رہا، میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ عدالتی فیصلہ غلط ہے، وزیراعظم کو بھی یہی ایڈوائس دی گئی کہ صدر کو عالمی استثنیٰ حاصل ہے، میں آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت صدرکے استثنیٰ کی بات نہیں کر رہا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں وزیراعظم کی عملدرآمد میں بدنیتی شامل نہیں۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کوکٹہرے میں حلف دینا چاہئے تھاکہ وزیراعظم کی رائے کیوں نہ پہنچائی۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ بیرون ملک اکاﺅنٹس صرف صدر نہیں دیگر افراد کے بھی تو تھے۔ دیگر افراد کی حد تک تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اعتزاز احسن نے جواب دیا میں اس معاملے پر بھی بات کروںگا۔ 5 آپشنز کے بعد طبل جنگ بج گیا کہ وزیراعظم نااہل ہو گئے۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ چھٹے آپشن میں کہا گیا ہے کہ نافرمان عمل نہ کرے تو پارلیمنٹ اس کیخلاف کارروائی کرے۔ اعتزاز احسن نے کہا فرض کریں کہ ہم نے خط لکھنے سے انکار کر دیا تو؟ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا پہلے انکار کریں پھر دیکھیں گے۔ اعتزاز احسن نے کہا فرض کریں کہ مجھے سزا ہونی چاہئے تو؟ جسٹس آصف کھوسہ نے جواب دیا ہم چھٹے آپشن پر اب بھی سوچ سکتے ہیں لیکن ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا۔ اعتزاز نے کہا کہ وزیراعظم کے مخالفین کہہ رہے ہیں انہیں سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ ایک عدالت میڈیا نے لگا رکھی ہے اور ایک یہاں ہے۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ میڈیا کی بات چھوڑیں اپنے دلائل پر آئیں۔ میڈیا کا ایک فائدہ یہ ہے کہ آپ کو یہاں سننے سے پہلے وہاں سن لیتے ہیں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ استغاثہ کی شہادت میں کوئی ثبوت نہیں کہ وزیراعظم نے توہین عدالت کی۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے عدالتی حکم وزیراعظم تک پہنچا دیا تھا۔ اعتزاز احسن نے جواب دیا اٹارنی جنرل کی طرف سے احکامات پہنچانے کا ثبوت نہیں۔ موجودہ شہادتوں اور دستاویزات پر پھانسی لگتی ہے تو لگا دیں مفروضے پر سزا نہیں ہو سکتی۔ جج بھی میرے طرح انسان ہیں میرا مو¿کل پیر اور گدی نشین ہے۔ ججز سے بھی میری طرح غلطی ہو سکتی ہے۔ میرے موکل کے بارے میں بھی سخت الفاط استعمال کئے گئے۔ اتنے سخت حکم کے بعد جج صاحبان کیلئے انصاف کرنا مشکل ہے۔ جسٹس اعجاز چودھری نے کہا کیا آپ کو پتہ نہیں کہ ہم یہاں کھلے ذہن کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ اعتزاز نے جواب دیا مجھے پتہ تو نہیں لیکن امید ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یقین رکھیں سزا مفروضے پر نہیں قانون پر ہو گی۔ رتی برابر بھی نہ سوچیں کہ قانون سے ہٹیں گے۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کیا اس سے پہلے بھی یہ اعتراض کیا گیا۔ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں کہ بنچ مقدمے کی سماعت نہ کرے۔ اعتزاز احسن نے جواب دیا جی ہاں، کیونکہ جس بنچ نے وزیراعظم کوشوکاز نوٹس دیا اور مقدمے سے پہلے فیصلہ سنا دیا وہ سماعت نہ کرے۔ جسٹس آصف نواز کھوسہ نے کہا آئندہ تو ہر کوئی کہے گا کہ جس بنچ نے نوٹس دیا وہ سماعت نہ کرے۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت آج تک ملتوی کر دی کیس کی روزانہ سماعت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ عدالت نے سخت الفاط استعمال نہیں کئے۔ عدالت اگر سخت ہوتی تو آپ کو اتنے مواقع فراہم نہ کرتی۔ ہم نے بھرپور ٹرائل کا موقع دیا۔ جسٹس آصف سعید نے کہا کہ اعتزاز صاحب، سات ججز کے بنچ نے فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ اور آٹھ ججز نے فیصلے کو برقرار رکھا، اس طرح تو پندرہ ججز نے رائے دے دی، آپ سوچ لیں، سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے مزید گواہ اور ثبوت پیش نہ کرنے کا اعلان کیا گیا جس پر عدالت نے شہادتیں مکمل ہونے کا آرڈر لکھوا دیا۔ اس سے قبل جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے کہ سترہ رکنی بنچ کے فیصلوں سے باہر نہیں جا سکتے۔ ثناءنیوز کے مطابق عدالت عظمیٰ نے کہا کہ اگر وزیراعظم اپنے جرم کا اعتراف کر لیں تو معاملہ پارلیمنٹ کو بھیجا جا سکتا ہے۔ آئی این پی کے مطابق سات رکنی بنچ نے اعتزاز احسن کی جانب سے بنچ کا اعتراض نہ مانتے ہوئے کہا کہ آپ کا اعتراض مان لیا جائے تو آئندہ ہر کوئی کہے گا کہ جس جج نے نوٹس جاری کیا وہ اس کیس کی سماعت نہ کرے۔