موجودہ حالات اورعبوری وزیر اعظم کی ترجیحات

Mar 22, 2013

لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم

1993کے وسط میں جب میں بطور بریگیڈئر گوجرانوالہ چھاونی میں اپنے فرائض سر انجام دے رہا تھاتو جی ایچ کیو سے حکم ملا کہ دو دوسرے بریگیڈئیر ز کے ہمراہ ہمیں نئے عبوری وزےراعظم جناب معین قریشی کے پاس حاضر ہونا ہے تاکہ وہ مختلف امیدواروں کے انٹرویوز کے بعد ایک موزوں ملٹری سیکرٹری کا انتخاب خود کر سکیں۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ میں وزیراعظم کے دفتر میں داخل ہوا ۔ معین قریشی صاحب نے پہلے تو قومی سلامتی کے کچھ امور پر سوالات کئے پھر پوچھا کہ آپ نیشنل ڈیفنس کالج میں پڑھاتے بھی رہے ہیں وہاں جنگی علوم کے علاوہ اور کیا پڑھایا جاتا ہے ۔ میں نے عرض کیا کہ نیشنل ڈیفنس کالج، جو اب قومی دفاعی یونیورسٹی ہے، میں عسکری حکمت عملی یا ملٹری سٹریٹجی کے علاوہ نیشنل پالیسی پر بھی بہت زیادہ بحث ہوتی ہے اور افواج پاکستان اور سول بیوروکریسی کے اعلیٰ آفیسرز کو نیشنل Interests ، نیشنل Purpose اور قومی سلامتی یا نیشنل سیکورٹی کے علاوہ دفاعی ، خارجہ اور اقتصادی پالیسیوں سے وابستہ پاکستان کے چوٹی کے ماہرین آکر لیکچر دیتے ہیں اور بہت کھلے مباحثے ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ عبوری وزیراعظم نے میری فیملی بیک گراﺅنڈ سے متعلق بھی چند سوالات کئے۔ انٹرویو کے بعد مجھے بتایا گیا کہ وزیراعظم نے خاکسار کو انکے ساتھ بطور ملٹری سیکرٹری کام کرنے کی منظوری دی ہے۔ میں دعا گو ہوا کہ اللہ مجھے اس اہلیت اور بصیرت سے بھی نوازے کہ میں عبوری وزیراعظم کی توقعات پر پورا اتر سکوں اور پاکستان کے سب سے اعلیٰ دفتر میں ایک بہت اہم عہدے پر بیٹھ کر، اللہ سے ڈرتے ہوئے، اپنی پاکستانیت کا حق ادا کر سکوں۔
آدھے گھنٹے کے انٹرویو میں جب معین قریشی صاحب سوالات کر کے میری شخصیت اور اہلیت کو بھانپ رہے تھے تو میں انکے سوالات کی نوعیت ، گہرائی، طرز گفتگو اور چہرے کے تاثرات سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ پاکستان جیسے بہت ہی اہم ملک کی وزارت عظمیٰ کے خاردار مسند پر بیٹھ کر عبوری وزیراعظم کس حد تک اپنے مشن میں کامیاب ہوں سکیں گے۔مجھے یہ پتہ تھا کہ معین قریشی نے گورنمنٹ کالج لاہور سے Role of Honors کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ وہ ایک بین الاقوامی سطح کے ذہین معاشی ماہر ہونے کی بدولت ورلڈ بینک میں سینئر وائس پریذیڈنٹ کے عہدے تک جا پہنچے ۔ نہائت دیانتدار اور فرض شناش ہونے کیساتھ ساتھ وہ ایک اچھے انسان ہیں لیکن پاکستان سے ایک لمبے عرصے کی غیر حاضری سے ان کو پاکستان کے اصلی معاملات یا زمینی حقائق کا پتہ تھا نہ وہ State Apparatus کی Working سے آشنا تھے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے پاکستان میں کبھی بھی کوئی ملازمت نہیں کی تھی۔ اچھی بات یہ تھی کی میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں نے معین قریشی کے نام پر رضا مندی کا اظہار کیا تھا۔
اس سلسلے میں وہ محدود وقت میں جو کچھ کر سکتے تھے انہوں نے نہایت دیانتداری اور حب الوطنی کے جذبے سے سر شار ہو کر شاہد جاوید برکی کی مدد سے صرف اقتصادی میدان میں کرنے کی کوشش کی ، خوش قسمتی سے اس وقت ماحول پر امن تھا ۔ دھماکوں اور دہشتگردی کا دور دور تک نشان نہ تھا لیکن پھر بھی ملکی معاملات کو چلانا کوئی پھولوں کی سیج نہ تھا۔ IMFسے متعلق بہت ساری ہدایات جاری کی گئیں۔ بی بی سی، سی این این، ٹائمز اور نیوزویک جیسے اہم ترین بین الاقوامی نشریاتی اداروں اور رسالوں کو وزیراعظم نے انٹرویوز دیئے اور انتخابات کے دوران مرحوم فاروق لغاری جیسے کئی امیدواروں نے دھاندلی کی سخت شکاےات بھی کیں جن سے عقلمندی سے نمٹا گیا اسکے علاوہ وزیراعظم نے سینٹ کے کئی اجلاس میں بھی حاضری دی۔ ڈیفالٹرز کی لسٹ کے اخبارات میں چھپنے سے سیاستدانوں نے شور مچایا لیکن وزیراعظم نے پرواہ نہ کی ۔ اسکے علاوہ بہت سارے آرڈینس بھی جاری کئے گئے۔
آج 20 سال کے بعد پاکستان کے معاملات حد درجہ گھمبیر ہیں مالی مشکلات اتنی ہیں کہ اس کی پاکستانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے اہم مذاکرات اور اسکے نتیجے میں دور رس فیصلے کرنے ہو نگے۔ دہشتگردی روز کا معمول ہے ۔ انرجی کا ایسا بحران ہے کہ شائد ہی افریقہ کے کسی غریب ترین ملک کا بھی یہ حال ہو۔ اسکے علاوہ یہ بھی ایک سچی بات ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ملک تنہائی کا شکار ہے امریکہ چین کو گوادر بندرگاہ دینے کا ٹھیکہ دینے پر خوش ہے نہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن والے منصوبے کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے ۔ ہندوستان ہماری سرحدوں کے ساتھ اسلحے کے انبار لگا رہا ہے ۔ ہمارے دریاﺅں پر دھڑا دھڑ بند باندھے جا رہے ہیں ۔ افغانستان سے بھارت کی بلوچستان اور فاٹا میں چھیڑخانی بھی جاری ہے ۔
ان بد ترین حالات میں پاکستان کا مالی بحران عبوری دور حکومت میں شدت اختیار کر سکتا ہے ۔ لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں بھی ہو سکتی ہیں ، دہشتگرد لوگوں کو یر غمال بنا سکتے ہیں ۔ ہوائی جہاز ہائی جیک ہو سکتے ہیں یا انتخابات کو ملتوئی کروانے کیلئے کوئی اور ایمرجنسی کی صورت حال بھی پیدا کی جا سکتی ہے ۔ ایسے حالات میں عبوری وزیراعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ کو بہت اہم اور حساس فیصلے کرنا ہونگے اسلئے نئے عبوری وزیراعظم یا وزرائے اعلیٰ کے چناﺅ کے وقت یہ نہ سوچا جائے کہ مختلف سیا سی پار ٹیوں کے مفادات کا کون بہتر خیال رکھ سکتا ہے بلکہ سوچ یہ ہونی چاہیے کہ ملکی مفادات کے تحفظ کےلئے کون سی شخصیات زیادہ موزوں ہیں۔
یہ بات میرے خیال میں درست نہیں ۔ عبوری حکومت آئینی اور قانونی ہے اور اس پر دستور کو ئی ایسی پابندی نہیں لگاتا کہ وہ عبوری دور میں پاکستان کی سالمیت اور مفادات کے تحفظ کیلئے کوئی فیصلہ نہ کر سکے۔ ظاہر ہے ساٹھ دنوں میں عبوری وزیراعظم پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ موڑنے کی طرف تو نہیں جائے گا نہ کسی ملک کیخلاف اعلان جنگ کریگا لیکن اگر عبوری مدت میں پاکستان کی سا لمیت پر کسی نے حملہ کیا یا بین الاقوامی سطح پر اگر پاکستان کے مفادات کیخلاف کوئی کارروائی کی گئی تو عبوری وزیر اعظم یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس سلسلے میں ضروری فیصلے دو ماہ بعد عوامی مینڈیٹ سے منتخب ہو کر آنیوالے عوامی نمائندے کرینگے۔ اقتصادیات اور انرجی کے معاملات میں بھی ایک دن ضائع کئے بغیراہم فیصلے ضرور کرنے چاہئیں لیکن ایسی صورت میں عبوری وزیر اعظم اور اسکی معاشی ٹیم بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت اور انکے معاشی ماہرین کو ضرور اعتماد میں لیں۔ اس پس منظر میں عبوری وزیراعظم سے قوم کی توقعات کچھ یوں ہونگی۔
(1) اپنے حلف کا پاس رکھتے ہوئے مکمل غیر جانبدار رہے اور الیکشن کمیشن کی رہنمائی اور بھر پور مدد کی جائے تاکہ منصفانہ انتخابات کا انعقاد مقررہ مدت میں ہو سکے اور اقتدار کی امانت عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھوں میں چلی جائے۔( 2) مالیاتی کو تاہیوں کے تدارک پر فوری توجہ دیتے ہوئے اپنی بہترین مالیاتی ٹیم کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ کرپشن ، رشوت اور ٹیکس چوری کرنے والوں پر قانون بجلی کی طرح گرے۔ (3)انرجی کے مسائل کو حل کرنے کیلئے چوری اور ضیاع کو بند کیا جائے ۔ تھرمل پاور پلانٹس کی فوری مرمت ہو۔ ایران سے گیس پائپ لائن منصوبے کی شفافیت کو بہتر کرتے ہوئے اسے آگے بڑھایا جائے۔(4) غیر قانونی طور پر قرضے معاف کروانے والے ڈیفالٹرز ، ماضی میں جعلی ڈگریوں پر انتخابات لڑنے والوں ، دوہری شہریت کو چھپا کر دھوکہ دینے والوں ، رشوت لینے والوں اور ایسے امیدواروں کو جو غیر اخلاقی حرکات کرتے ہوئے پکڑے گئے ہوں یا ٹیکس چوری کے الزامات میں ملوث ہوں ، انتخابات سے دور رکھا جائے۔(5)صوبوں کے آئی جی، ڈی آئی جی ، چیف سیکرٹری حتیٰ کہ ڈی سی او ز ان غیر سیاسی افراد کو تعینات کیا جائے جو اچھی شہرت کے حامل ہو ں ۔ اسی طرح پرنسپل سیکرٹری سمیت سارے فیڈرل سیکریٹریز کی بھی چھان بین کر کے کرپٹ اور سیاسی طور پر جانبدار لوگوں کو الگ کردیا جائے۔ (6) دفتر خارجہ اور بیرونی سفارت خانوں میں سیاسی بنیادوں پر لگائے گئے سفیر فوراً ہٹا کر وہاں پیشہ ور سفارت کار لگائے جائیں۔ (7) یہ بہترین موقع ہو گا کہ کراچی کی ہر سیاسی جماعت میں موجود ان دہشت گردوں کو دبوچ لیا جائے جن کا ذکر سپریم کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں کیا تھا۔( 8) قانون کی حکمرانی ایسی ہو کہ اگر کوئی اعلیٰ شخصیت بھی ٹریفک کا قانون توڑے، ٹیکس یا بجلی چوری کرے تو شام کو جیل میں ہو۔
قارئین !! اس میں شک نہیں کہ پاکستان کی خوشحالی کا راز صرف ایسی قانون کی حکمرانی میں ہے جسکی گرفت سے اعلیٰ عہدے پر بیٹھے ہوئے بھی نہ بچ سکیں۔

مزیدخبریں