ہمارے تو گمان میں بھی نہیں تھا کہ قلم و قرطاس سے عشق کرنے والی نابغہ¿ روز گار اور باغ و بہار شخصیت ہمیں اتنی جلدی اداس اور مغموم چھوڑ جائے گی۔ جس طرح کے حالات و سانحات ہمارے ملک میں رونما ہوتے رہتے ہیں، زندگی کی بے ثباتی کا کچھ زیادہ ہی احساس ہوتا ہے خالد احمد زندہ تھے تو دل کو طمانیت ہوتی تھی کہ وہ ملکی حالات کا مقابلہ کرنے اور ہمیں حوصلہ دینے کے لئے ”نوائے وقت“ کے صفِ اول کے کالم نگاروں میں اپنا اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ خالد احمد جیسی شخصیت کو مرحوم کہنے کوجی نہیں چاہتا۔ ایسی شخصیات جن کا اوڑھنا بچھونا تخلیق ہو یعنی شعر وادب ہو موت ہی کو تو شکست دیتی ہیں۔ خالد احمد کے اس شعر کو دوام ہی دوام ہے۔ اسے کیسے زوال آ سکتا ہے....
ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں
خالد احمد کی شخصیت میں ایک ایسی درویشی اور اپنائیت تھی کہ ہر کوئی ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ محترم رفیق غوری صاحب نوائے وقت آتے تو میری ان سے ملاقات ہوتی۔ رفیق غوری صاحب فضل حسین اعوان صاحب سے کہتے کہ میں تنویر کو ”بیٹھک“ ضرور لے جاﺅں گا۔ اسی بیٹھک میں میری ملاقاتیں خالد احمد صاحب سے شروع ہو گئیں۔ خالد احمد جہاں ایک درویش صفت انسان تھے، وہاں وہ حاضر جوابی اور جملہ کہنے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ خالد احمد صاحب اور رفیق غوری صاحب کے درمیان بڑے دلچسپ اور معنی خیز جملوں کا تبادلہ ہوتا تھا۔ رفیق غوری صاحب پیار سے کہتے کہ خالد صاحب! آپ کا کالم آج پھر سمجھ میں نہیں آیا پھر خالد صاحب رفیق غوری صاحب پر کٹیلے فقرے نچھاور کرتے اور قہقہے لگاتے۔ خالد صاحب سے رفیق غوری صاحب کا مکالمہ ”بیٹھک“ کی رونق اور جان تھا۔ میں رفیق غوری صاحب کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ وہ ان کے بغیر کتنے اداس اور غمگین ہو چکے ہوں گے۔
اب ایک اور دوست کی مثال میری آنکھوں میں گھوم رہی ہے۔ وہ ہے جناب نجیب احمد صاحب کی خالد احمد سے دوستی۔ اس وقت جناب نجیب احمد پر کیا قیامت ٹوٹ رہی ہو گی۔ جناب نجیب احمد بیٹھک میں تین بجے سہ پہر آ جاتے اور آتے ہی خالد احمد کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیتے۔ خالد صاحب کو بیٹھک پہنچنے میں دیر ہوجاتی تو ٹیلی فون پر پوچھتے کہ کہاں ہیں؟
خالد صاحب جونہی بیٹھک میں داخل ہوتے۔ ایک نعرہ بلند ہوتا۔ ان کے آنے سے بیٹھک بھری بھری لگتی۔ ہمارے میز کی طرف آتے تو ہم ان کے احترام میں کھڑے ہو جاتے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ وہ آتے ہی دوسری میز پر بیٹھ جاتے اور ”نوائے وقت“ کے لئے کالم لکھنا شروع کر دیتے۔ ہم حیران ہو جاتے کہ دوستوں کی گپ شپ کے شور میں وہ ایک خوبصورت اور تخلیقی کالم کیسے لکھ لیتے ہیں پھر ہم سوچتے کہ یہ اسی ریاضت کا نتیجہ ہے جو خالد احمد صاحب نے اپنے ادبی مرشد جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کی سرپرستی میں کی تھی۔
خالد احمد بیک وقت شاعر، ادیب، نقاد اور کالم نگار تھے۔ خالد احمد ایک عالم فاضل شخصیت تھے۔ انہیں بہت سے علوم پر دسترس حاصل تھی۔ علم عروض کے حوالے سے انہیں استاد کامل کا درجہ حاصل تھا۔ نوآموز شاعر ان سے فن شاعری کے حوالے سے مشورے کرتے تھے۔ اور اس فن کی گہرائیوں سے آگاہ ہوتے تھے۔ ایک تقریب میں خالد صاحب نے احمد ندیم قاسمی صاحب کی تقلید کا اعتراف ان الفاظ سے کیا۔ قاسمی صاحب نے شاعری کی، ہم نے بھی شاعری کی۔ قاسمی صاحب نے کالم نگاری کی، ہم نے بھی کالم نگاری کی، قاسمی صاحب نے پرچہ نکالا ہم نے بھی پرچہ نکالا اس میں کوئی شک نہیں کہ خالد احمد صاحب نے اپنے ادبی مرشد سے ہر ہر قدم پر عقیدت کا اظہار کیا اور خود شعر و ادب میں ایک لازوال مقام پر پہنچ گئے۔
خالد احمد صاحب کا ایک طویل نعتیہ قصیدہ ”تشبیب“ ادب میں ایک معرکے کی چیز ہے۔ اس قصیدے میں خالد احمد اپنے دوستوں کے نام لے لے کر ان کےلئے دربارِ رسالتﷺ میں رحمتوں کی درخواست کرتے ہیں۔
خالد احمد کے ادبی دوست ان کی اس دعا پر بہت خوش ہوئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خالد احمد نے اپنے دوستوں کو دربارِ رسالتﷺ میں گڑ گڑاتے ہوئے یاد کیا۔
خالد احمد اردو ادب کی دو بڑی اہم افسانہ نگار اور ناول نگار خواتین خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور کے بھائی تھے ایک ہی خاندان سے تعلق رکھنے والے ادب کے یہ تابناک ستارے ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو چکے ہیں۔ ہم ان کی عظمتوں کو سلام کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ خالد احمد کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے اہلِ خانہ اور ان کے دوست احباب کو صبر جمیل سے نوازے (آمین)
آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے۔