پاکستان کے بزرگ صحافی اور مصنف یزدانی جالندھری، جن کا اصلی نام سےدعبدالرشید یزدانی تھا، اردو ادب کے گلستان میں ساٹھ سال تک خوبصورت افسانوں اور نظموں کے پھول اگاتے رہے۔ یزدانی جالندھری کی رنگارنگ تحریروں کا ایک مصنف کا قلم ان کے ہاتھ میں تھا۔ ان کا قلم ان کے یوم وفات یعنی 23 مارچ 1990ءتک اردو زبان اور ادب کی آبیاری کرتا رہا۔ یزدانی جالندھری کی ادیبانہ زندگی کا عرصہ ساٹھ سال سے کم نہیں۔
مرحوم بنیادی طور پر افسانہ نویس اور شاعر تھے لیکن ان کی ابتدائی ادیبانہ زندگی میں ایسا وقت بھی آیا جب انہوں نے اردو زبان میں بنگالی زبان کے معیاری افسانوں اور ناولوں کا ترجمہ کیا۔ بنگلہ زبان کے تراجم میں شرت چندر چیٹر جی کے دو معروف ناول آوارہ اور بڑی دیدی شامل تھے۔ رابندر ناتھ ٹیگور بنگلہ زبان کے معروف مصنف تھے۔ ان کی بنگلہ نگارشات اردو میں متعارف کرانے کا سہرا یزدانی کے سر تھا۔ رابندر ناتھ ٹیگور کے ناول ”گورا“ کے پہلے مترجم یزدانی جالندھری تھے۔ انہوں نے 1933ءمیں رابندر ناتھ ٹیگور کے معروف ناول THE WRECH (ٹو گاڈولی) کا اردو ترجمہ کیا تو اردو حلقوں میں ان کے تراجم کی دھوم مچ گئی اور یزدانی جالندھری بنگالی تحریروں کے بہترین مترجم قرار پائے۔ 1940ءتک ان کے اردو تراجم کا دائرہ روسی ناول نگار لیو نالسٹائی اور ہندی کتاب ”قیدی کے خطوط“ کے تراجم تک پھیل گیا۔ انہوں نے لاہور کے دو اشاعتی اداروں کتابستان اور نرائن سہگل اینڈ سنز کیلئے ٹالسٹائی کی کہانیوں اور ٹیگور کے افسانوں کا اردو ترجمہ کیا۔
یزدانی جالندھری 16 جولائی 1915ءکو بھارتی پنجاب کے معروف شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم جالندھر میں ان کے والد بہاول شاہ کی زیرنگرانی ہوئی۔ ان کے خاندان میں شروع ہی سے اردو کا بڑا چرچا تھا۔ مرحوم کی تعلیم بھی اردو میں ہوئی۔ انہوں نے ادیب فاضل یعنی آنرز ان اردو کا امتحان نمایاں حیثیت سے پاس کیابعدازاںاےف اے اسلامےہ کالج رےلوے روڈ لاہور سے کےا مرزا ادےب اور ضمےر جعفری ان کے کلاس فےلو تھے بعدازاں والد بہاول شاہ کی وفات کے بعد مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ انہیں تصانیف و تالیف پر توجہ دینا پڑی۔ جرنلزم اور اردو ادب روزی کمانے کا ذریعہ بن گیا۔ یزدانی مرحوم نے 1938ءمیں ”ساغر انقلاب“ کے عنوان سے اردو رباعیات شائع کیں۔ ”حسن پرست“ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ تھا۔
یزدانی جالندھری کی صحافتی زندگی کا زیادہ عرصہ ادبی جرائد کی ادارت میں گزرا۔ مرحوم سے میری پہلی ملاقات 1937ءمیں ماہنامہ شاہکار کے دفتر میں ہوئی۔ اس ادبی جریدہ کی ادارت شمس العلماءمولانا تاجور نجیب آبادی کے سپرد تھی۔ ان دنوں شاہکار کا دفتر لاہوری ادیبوں اور شاعروں کی آماجگاہ تھا۔ معروف ہندو ادےب گوپال متل جنہوں نے نئی دہلی پہنچ کر لاہور کی یادوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی، اور یزدانی اس جریدے سے منسلک تھے۔ معروف رومانی شاعر اختر شیرانی اور قتیل شفائی اکثر شاہکار کے دفتر آتے تھے۔ یزدانی جالندھری صحافت کے خاموش کارکن تھے۔ 1937ءمیں نیازمندان لاہور اور مولانا تاجور نجیب آبادی کے احباب کے درمیان چپقلش کا سلسلہ جاری تھا مگر یزدانی جالندھری کو اس ادبی آویزش سے کوئی سروکار نہ تھا۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ شاہکار کے صحافتی فرائض سے فارغ ہو کر وہ تصنیف و تالیف پر توجہ دیتے تھے۔ یہ زمانہ یزدانی جالندھری کے ادبی عروج کا زمانہ تھا۔
مرحوم سے ملاقاتوں اور مجلس آرائی کا یہ سلسلہ اس وقت بھی جاری رہا جب وہ لاہور کے ادبی جریدہ بیسویں صدی کے مدیر معاون تھے۔ ان کے رومانی اور نیم رومانی افسانے بیسویں صدی میں شائع ہوتے تھے۔ خوشتر گرامی بیسویں صدی کے مدیر و مالک تھے۔ میں یزدانی صاحب کی وساطت اور روزنامہ انقلاب کے مدیر اعلیٰ مولانا عبدالمجید سالک کی ٹیلی فون کال پر خوشتر گرامی سے ملا تو انہیں دیکھ کر مجھے بڑا تعجب ہوا۔ میں مدیر صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو کرسی پر گورے چٹے رنگ کا ایک پٹھان براجمان تھا۔ پٹھانوں کے مخصوص انداز کی پلی مونچھیں، شلوار قمیض کے اوپر قدیم اور پڑھے لکھے پٹھانوں کا ساکوٹ، سر پر پٹھانی انداز کی پگڑی اور پا¶ں میں پشاوری جوتا۔ میں نے حیرت سے یزدانی صاحب کی طرف دیکھا تو وہ جواب میں مسکرائے اور کہا ”ان سے ملئے۔ یہ ہیں بیسویں صدی کے مدیر خوشتر گرامی“۔
خوشتر گرامی نے بیسویں صدی کے علاوہ ادبی کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ یزدانی جالندھری بیسویں صدی سے فارغ ہو کر اشاعتی کام کی طرف توجہ دیتے۔ اس کام کی انہیں الگ تنخواہ ملتی تھی۔ ایک سکھ نوجوان گور بخش سنگھ انکا معاون تھا۔ خوشتر گرامی کا ادارہ زیادہ تر رومانی افسانے اور ناول شائع کرتا تھا۔ اس دور کے رومان پسند ادیب عورتوں کے قلمی نام سے افسانے اور ناول لکھتے تھے جو بے حد پسند کئے جاتے تھے۔ یزدانی صاحب نے مجھے بھی رومانی تحریریں لکھنے کی دعوت دی لیکن میں روزنامہ انقلاب سے منسلک ہو چکا تھا۔ مجھے رومانی تحریریں لکھنے کی فرصت نہ تھی۔کم لوگوں کو علم ہے کہ یزدانی جالندھری کچھ عرصہ نئی دہلی میں قیام پذیر رہے جہاں وہ سکھ اخبار نویس سردار دیوان سنگھ مفتون کے اخبار ریاست میں بطور مدیر معاون کام کرتے تھے۔ سردار جی کے اخبار ریاست کے بیک وقت دو مسلمان مدیر معاون تھے۔ ریاست کے دوسرے مدیر معاون ابو ظفر نازش تھے جو بعد ازاں اخبار زمیندار کے مدیر معاون مقرر ہوئے۔
مجھے ان دنوں نئی دہلی جانا پڑا۔ شیخ سر عبدالقادر نئی دہلی سے ایک کتاب منگوانا چاہتے تھے۔ انہوں نے مجھے اس مقصد کے لئے سردار دیوان سنگھ مفتون کے نام ایک رقعہ دیا اخبار ریاست کے دفتر پہنچ کر مجھے یزدانی صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ یزدانی صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ سردار دیوان سنگھ مفتوں حسب معمول کچھ عرصہ سے روپوش ہیں البتہ ان کی عدم موجودگی میں ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ عملے کو کئی ماہ سے تنخواہ نہیں ملی تھی، اس کے باوجود یزدانی جالندھری اور ابو ظفر نازش بڑے مطمئن تھے۔ اخباری عملہ کیلئے تنخواہ کی ادائیگی کا طریقہ یہ تھا کہ سردار دیوان سنگھ مفتوں برسوں کی برسات کے بعد نمودار ہوتے تھے عملے کا پچھلا حساب چکانے کے علاوہ پیشگی تنخواہ عنایت فرما دیتے۔ ان کا عملہ مالی نشیب و فراز سے بخوبی واقف تھا۔ مجھے کئی دن سردار دیوان سنگھ کا انتظار کرنا پڑا۔ میں نے یہ دن یزدانی جالندھری کے ساتھ گزارے۔
یزدانی جالندھری جب شورش کاشمیری کے اخبار چٹان سے منسلک ہوئے تو میں ہفت روزہ نصرت کا ایڈیٹر تھا۔ ہمارے دفاتر ایک ہی سڑک پر واقع تھے۔ ذرا فرصت ملتی تو یزدانی جالندھری میری طرف چلے آتے یا میں ان کے پاس پہنچ جاتا۔ ملاقات میں کبھی کبھی نشتر جالندھری بھی شریک ہوتے۔ چٹان کے دفتر میں بسا اوقات شورش مرحوم سے علمی گپ شپ ہوتی۔
23 مارچ 1990ءیزدانی جالندھری کا یوم وفات تھا، وہ زندگی کے آخری دنوں ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کے شعبہ ادارت کے رکن تھے۔ مرحوم ماہنامہ کی کاپیاں جوڑنے تک کی نگرانی کرتے تھے۔ وہ شروع ہی سے محنت کے عادی تھے اور یہ سلسلہ مرتے دم تک جاری رہا البتہ وہ مشاعرے کیلئے کچھ وقت ضرور نکال لیتے تھے جو معروف شاعر ڈاکٹر عبدالرشید تبسم کے مکان واقع ماڈل ٹا¶ن پر ہر ماہ باقاعدگی سے ہوتا تھا۔ ماڈل ٹا¶ن میں ادبی فا¶نڈیشن کے نام سے ایک ادارہ قائم تھا۔ یزدانی جالندھری ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کی ادارت کے ساتھ ساتھ اس تنظیم کے بھی سیکرٹری تھے۔ انہوں نے زندگی کے آخری دور میں ان مشاعروں پر مشتمل ایک کتاب اور لاہور کے شعراءکا تذکرہ بھی لکھا۔