قصور کے انتخابی معرکے

بابا بلھے شاہ اور ملکہ ترنم نور جہا ں کا شہر قصور پنجاب کے اُن شہروں میں سے ایک ہے جس کا شہری علاقہ کم اور دیہی آبادی زیادہ ہے۔ تمام ایسے شہروں کی طرح قصور کے لوگ بھی ووٹ دینے کا فیصلہ سیاسی جماعتوں سے زیادہ اپنی برادریوں اور مقامی دھڑے بندیوں کو ترجیح دیتے ہوئے کرتے ہیں۔ قیام پاکستان سے 30جون 1976 تک قصور لاہور کا حصہ تھا یکم جولائی1976 کو قصور کو ضلع کا درجہ مل گیا۔1998 کی مردم شماری کے مطابق قصور کی آبادی23لاکھ76 ہزار نفوس تھی تاہم اب آبادی بلا مبالغہ بڑھ کر دوگنی ہوچکی ہوگی۔آبادی میں اضافے کی رفتاری کا اندازہ ماضی قریب اور حال میںرجسٹرڈ کئے گئے ووٹروں کی تعداد سے لگا سکتے ہیں الیکشن 2008 میں قصور کی قومی اسمبلی کی 5 اور صوبائی اسمبلی کی 10 نشستوں کیلئے ووٹروں کی تعداد11لاکھ79 ہزار115 تھی جو 2013 میں بڑھ کر 14لاکھ25 ہزار 664 ہوچکی ہے۔ یہاں انتخابات میں برادریاں اور دھڑے بندیاں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں تاہم مسلم لیگ (ن)،پیپلز پارٹی، تحریک انصاف،جماعت اسلامی وغیرہ کا ووٹ بینک بھی کہیں زیادہ کہیں کم موجود ہے۔قصور کی بڑی برادریوں میں میواتی،آرائیں، جٹ،ڈوگر،انصاری، لکھوی شامل ہیں۔قصور کے بڑے بڑے دھڑوں میں سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال خان کے والد الحاج رانا پھول محمد خاں مرحوم اور اُن کے متحارب سردار عارف نکئی مرحوم کا دھڑا آج بھی ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہے۔ آنے والے الیکشن میں بھی یہ دھڑے ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے۔ قصور میں سردار آصف احمد علی، سردار طفیل احمد خان،چوہدری حاکم علی، میاں خورشید محمود قصوری،چوہدری محمد حنیف خان مرحوم،سردار حسن اخترموکل مرحوم،راﺅ خضر حیات خان،مولانا معین الدین لکھوی مرحوم،ملک رشید خان، چوہدری محمد الیاس خان،حاجی سردار خان،پیر مختار احمد فیملیز خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔
1988 سے جماعتی عام انتخابات کا جائزہ لیاجائے تو 1988 میں این اے106 قصور سے آزاد حیثیت میں صاحبزادہ خضرحیات خان نے 63 ہزار993 وو ٹ حاصل کرکے پیپلز پارٹی کے سردار آصف احمد علی 39 ہزار468 ووٹ کو شکست دی۔ آئی جے آئی کے ملک عاشق صرف 1 ہزار 229 ووٹ لے سکے۔1990 کے عام انتخابات میں سردار آصف احمد علی نے آزاد حیثیت میں اور 1993 میں مسلم لیگ(ج) کی ٹکٹ پر اپنے حریف صاحبزادہ خضر حیات سمیت دیگر کو شکست دی اور رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔1977 میں وہ مسلم لیگ(ج) کے پلیٹ فارم سے لڑے انہیں مسلم لیگ(ن) کے میاں خورشید محمود قصوری کے ہاتھوں شکست اٹھانا پڑی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سردار آصف احمد علی اور میاں خورشید محمود قصوری دونوں ہی اب مسلم لیگ(ق) چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں اور اس حلقہ انتخاب سے پی ٹی آئی کی ٹکٹ کے خواہاں ہیں۔
 2008 میں مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر این اے 138 قصور سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے راﺅ مظہر حیات خان کے والد راﺅ خضر حیات خان 1988 اور1990 میں آئی جے آئی کی ٹکٹ پر جبکہ 1993 میں مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔انہوں نے ان تمام انتخابات میں پہلے چوہدری حاکم علی اور پھر ان کے صاحبزادے طارق حاکم علی کو شکست دی ۔1997 میں راﺅ خضر حیات خاں کے صاحبزادے راﺅ مظہر حیات خان نے ان کی جگہ مسلم لیگ چٹھہ کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا اور مسلم لیگ (ن) نے یہاں سے اپنے رکن پنجاب اسمبلی چوہدری محمد حنیف خان کو پروموٹ کرکے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑوایا،چوہدری حنیف خان خاندانی مسلم لیگی تھے اور اُن کے نانا بھی قیام پاکستان سے پہلے ممبر رہ چکے تھے۔الیکشن میں کامیاب ہوئے۔2008 کے الیکشن میں راﺅ مظہر حیات مسلم لیگ (ن) کی طرف سے کامیاب ہوئے تھے مگر سپریم کورٹ نے ان کی ڈگری جعلی قرار دیدی اور نا اہل کردیا۔ ضمنی الیکشن میں ملک دستگیر خان کامیاب ہوئے، آنے والے الیکشن میں بھی مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ کے خواہشمند ہیں جبکہ 513 مظہر حیات خاں کی اہلیہ محترمہ اُن کے صاحبزادے راﺅ عامر حیات خان، ندیم سیٹھی ایم پی اے مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ کے خواہاں ہیں۔ مسلم لیگ(ق) کے سردار طفیل پاکستان تحریک انصاف کے حسن علی خان جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار طارق حاکم علی ہوںگے۔ قومی اسمبلی کے این اے 139 قصور کا الیکشن 2008 میں مسلم لیگ(ن) کے شیخ وسیم اختر 51 ہزار436 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔اُن کے قریبی حریف پیپلز پارٹی کے چوہدری منظور احمد 44ہزار ووٹ حاصل کرسکے۔ آنے والے الیکشن میں بھی ان دونوں کو اُن کی جماعتوں کی طرف سے ٹکٹ ملنے کے امکانات روشن ہیں۔محترمہ نیلو فر مہدی نے پچھلا الیکشن مسلم لیگ(ق) کی ٹکٹ پر لڑ کر 21ہزار12ووٹ حاصل کئے تھے اور اب بھی یہاں سے امیدوار ہیں۔ مسلم لیگ ہمخیال کے سید نوید ہاشم رضوی بھی الیکشن لڑنے کے خواہاں ہیں جبکہ غلام صابر انصاری پی ٹی آئی کے امیدوار ہوسکتے ہیں۔ غلام صابر انصاری آئی جے آئی اور مسلم لیگ(ن) کی ٹکٹ پر 1988 سے 1997 تک صوبائی اسمبلی کا الیکشن جیت چکے ہیں وہ مسلم لیگ(ق) میںچلے گئے تھے اور اب وہ پاکستان تحریک انصاف میں ہیں۔
 این اے 140 قصور سے 2008 میں سردار آصف احمد علی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے انہوں نے مسلم لیگ(ق) کے میاں خورشید محمود قصوری، مسلم لیگ(ن) اور مرکزی جمعیت اہلحدیث کے ڈاکٹر عظیم الدین زاہد لکھوی اور سردار حسن اختر موکل (آزاد) کو شکست دی تھی۔ تحریک انصاف جوائن کرنے کے بعد انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیا۔ ضمنی الیکشن میں ملک رشید احمد خان اور ڈاکٹر عظیم الدین زاہد لکھوی نے مسلم لیگ(ن) کا ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کی مگر مسلم لیگ(ن) نے الیکشن کو اوپن قراردیدیا۔ملک رشید خان جیت گئے اور مسلم لیگ(ن) کے ہوگئے جبکہ ڈاکٹر صاحب نے ہارنے کے بعد مسلم لیگ(ق) جوائن کرلی۔ آنے والے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کے سردار آصف احمد علی مسلم لیگ (ن) کے ملک رشید اور مسلم لیگ(ق) کے ڈاکٹر عظیم الدین زاہد لکھوی آمنے سامنے ہوں گے۔ میاں خورشید محمود قصوری بھی اس حلقہ انتخاب سے الیکشن لڑنے کے خواہاں ہیں۔ بلاشبہ اُن کا اس حلقہ میں خاصا ووٹ بینک موجود ہے۔یہاں یہ بیان کرنا بے جا نہ ہوگا کہ اس حلقہ انتخاب سے 1988 میں سردار عاشق ڈوگر 1990 میں مولانا معین الدین لکھوی،1993 میں سردار عاشق ڈوگر پیپلز پارٹی اور 1997 میں مولانا معین الدین لکھوی مسلم لیگ (ن) کامیاب ہوئے تھے۔
این اے 141قصور کا روایتی حلقہ ہے۔ الیکشن 2008 میں یہاں سے مسلم لیگ (ن) کے رانا اسحاق خان جیتے جبکہ ان سے شکست کھانے والے مسلم لیگ ق کے سردار طالب نکئی پچھلا الیکشن 2002ءان سے جیتے تھے۔1988 میں بھی طالب نکئی کامیاب ہوئے جبکہ 1990 میں رانا حیات خان نے انہیںشکست دی۔1993 میں سردار طالب نکئی جیت گئے اور 1997 میں رانا حیات خان نے انہیں ہرادیا۔ آنے والے الیکشن میں بھی ان روایتی حریفوں میں کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔ جہاں تک قصور کی صوبائی نشستوں کا تعلق ہے اس کے نتائج بہت دلچسپ رہے ہیں۔1988 سے 1997 تک حاجی غلام صابر انصاری مسلسل چار الیکشن جیتے۔ وہ نواز شریف کے ساتھی تھے۔145PP قصور ون سے وہ دو الیکشن 1990,1988 آئی جے آئی اور1997,1993 مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر جیتے۔ پی پی 146 قصور ٹو سے حاجی سردار خان نے آئی جے آئی کی ٹکٹ پر 1990,1988 کے الیکشن جیتے 1993 میں پیپلز پارٹی کے سردار محمد حسین ڈوگر ان سے جیت گئے۔ سردار محمد حسین ڈوگر نے الیکشن 2008 میں بھی کامیابی حاصل کی اور آنے والے الیکشن میں بھی وہ صوبائی اسمبلی کے حلقے سے پیپلز پارٹی کے امیدوار ہوں گے۔ 1997 میں اس حلقہ انتخاب سے ملک رشید خان مسلم لیگ(ن) کی ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔
ضلع قصور کے دو اہم ان خاندانوں کے سربراہان میں الحاج رانا پھول محمد خان1990,1988,1985 میں پی پی 149 سے نہ صرف رکن پنجاب اسمبلی رہے بلکہ وزیر بھی رہے جبکہ 1997,1993اور2008 میں ان کے صاحبزادے رانا محمد اقبال خان موجودہ سپیکر پنجاب اسمبلی کامیاب ہوئے۔ آنے والے الیکشن میں بھی وہ یہاں سے مضبوط امیدوار ہیں۔ سردار عارف نکئی دوسرے دھڑے کے سکہ بند لیڈر تھے۔ انہوں نے قصور کے صوبائی حلقے پی پی 150 سے 1993,1990,1988,1985 میں مسلسل کامیابیاں حاصل کیں وہ وزیراعلیٰ پنجاب بھی رہے مگر 1997 میں انہیں مسلم لیگ(ن) کے رانا محمد حیات خان کے ہاتھوں شکست کا زخم سہنا پڑا۔ الیکشن 2008 میں اُن کے صاحبزادے سردار آصف نکئی اگرچہ قومی اسمبلی کا الیکشن رانا اسحاق خان سے ہار گئے تھے لیکن صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 183 میں انہوں نے رانا حیات خان کو ہرادیا۔ اس حلقہ انتخاب سے آنے والے الیکشن میں بھی یہ دونوں امیدوار آمنے سامنے ہوں گے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار رانا اسلم ہوسکتے ہیں، میواتی برادری کے چوہدری ابراہیم بھی الیکشن لڑنے کے خواہاں ہیں۔ پی پی 184 سے2008 میں مسلم لیگ(ق) کی ٹکٹ پر شکست کھانے والے رانا سرفراز خان اس مرتبہ تحریک انصاف کی ٹکٹ پر لڑیں گے جبکہ مسلم لیگ(ق) کی طرف سے خالد ممتاز بھٹی امیدوار ہوں گے۔ قصور کے ایک اور سرکردہ پارلیمنٹرین سردار طفیل احمد خان نے بھی 1997,1993, 1990,1988 صوبائی اسمبلی کا الیکشن مسلسل جیتا اور 2002ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وہ مسلم لیگ (ق) کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا آنے والا الیکشن بھی لڑیں گے۔ پی پی 175قصور سے 2008 میں مسلم لیگ(ن) کے ندیم سیٹھی جیتے تھے جبکہ پی پی 180 قصور سے میواتی نوجوان احسن رضا خان نے 1985 سے1997 اور پھر 2002 میںرکن پنجاب اسمبلی منتخب ہونے والے سردار حسن اختر موکل کو شکست دی۔ احسن رضا خان اس حلقے سے آنے والے الیکشن میں بھی مضبوط امیدوار ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...