کراچی سے اسلحہ‘ لینڈ مافیا کے خاتمے‘ نئی حلقہ بندیوں کے بغیر امن ممکن نہیں : سپریم کورٹ

Mar 22, 2013

کراچی(وقائع نگار+آن لائن+این این آئی+نوائے وقت رپورٹ) چیف جسٹس افتخار چودھری نے کراچی بدامنی عملدرآمد کیس اور سانحہ عباس ٹاون کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ کراچی سے اسلحہ مافیا، لینڈ مافیا کے خاتمے اور نئی حلقہ بندیوں کے بغیر امن کا قیام ممکن نہیں ہے، انتظامی معاملات پر لارجر بینچ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کراچی میں آگ لگی ہے نہ مستقل آئی جی ہے اور نہ ہی چیف سیکرٹری، یہ شہرکس کے رحم و کرم پر ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ ملک ہمارا، صوبہ ہمارا، زمین ہماری ہے کیوں نہ ہم صوبہ کو لوٹنے سے بچائیں عزت اور زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے بلاخوف کام کرینگے اللہ حفاظت کرنے والا ہے۔ کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث سیاسی کارکنوں کی فہرست سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی۔ رپورٹ کے مطابق کراچی میں 6 اکتوبر 2011کے بعد 208 ٹارگٹ کلرز، 258 بھتہ خور گرفتار کئے گئے قتل، غیرقانونی اسلحہ، ڈکیتی کے الزام میں 224 کارکنوں کیخلاف 351 مقدمات درج ہوئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گرفتار ٹارگٹ کلرز میں ایم کیوایم کے 81، سنی تحریک کے 38، کالعدم تحریک طالبان کے 27، لیاری گینگ وار کے 17، اے این پی کے 13، کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے 6، تحریک انصاف کے 9 ملزم شامل ہیں۔ رپورٹ میں کالعدم تحریک طالبان، کالعدم جنداللہ ،لیاری گینگ وار کو سیاسی جماعتوں میں شمارکیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 20428 ملزم گرفتار ،240 مقدمات کا چالان عدالت میں پیش کیاگیا، 6اکتوبر 2011 کے بعد پولیس نے 45535 چھاپے مارے اور بھتہ خوری کے 338 مقدمات میں 268 بھتہ خور گرفتار کئے گئے جبکہ 152 کا چالان پیش کیا گیا۔ عدالت نے ڈی جی رینجرز اور چیف سیکرٹری سندھ کو طلب کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے اگر چیف سیکرٹری نہ آئے تو نگران حکومت سے انہیں ہٹانے کی سفارش کرینگے۔ چیف سیکرٹری نے چارج کس کو دیا، پتہ نہیں۔ لگتا ہے چیف سیکرٹری سپریم کورٹ کی سماعت کے باعث رخصت پر گئے ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے صوبہ جل رہا ہے، چیف سیکرٹری موجود نہیں اور نہ ہی آئی جی کا تقرر کیا گیا۔ نو گو ایریا ختم نہ ہونے پر عدالت نے ڈی جی رینجرز اور آئی جی پولیس سے رپورٹ طلب کی۔ عدالتی حکم میں کہا گیا کہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو فوری طور پر آرڈر سے آگاہ کیا جائے، آئی جی کا تقرر کیا جائے۔ سیکرٹری اسٹیبشمنٹ نے مسقل آئی جی کیوں تعینات نہیں کیا؟ بظاہر وفاقی حکومت اس معاملے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ارشد پپو و دیگر کو قتل کرنے کے بعد انکی نعشوں کے ٹکڑے نالے میں بہائے گئے۔ چیف جسٹس نے آئی جی ساﺅتھ سے استفسار کیا بتائیں ارشد پپو کی لاش لیاری کیسے پہنچی؟ آئی جی ساﺅتھ نے جواب دیا ایک روز پہلے ارشد پپو کو لوگ اغوا کرکے لیاری لائے اور تشدد کرکے قتل کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے میڈیا میں پورا واقعہ رپورٹ ہوا، صرف پولیس لاعلم ہے۔ ڈی آئی جی نے کہا 2011ءمیں لیاری میں ایک ہفتے تک آپریشن ہوا، پولیس علاقے میں نہیں جاسکی۔ ارشد پپو کو ایک جماعت سپورٹ کرتی ہے۔ بابا لاڈلا گروپ کو دوسری جماعت۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسکا نام بتائیں جو نوگو ایریا کے خاتمے سے آپ کو روکتا ہے۔ عدالتی فیصلے پر عمل کیوں نہیں کررہے؟ ڈی جی رینجرز تحریری جواب دیں۔ رینجرز کے وکیل نے جواب دیا رینجرز بیان دے چکی ہے کہ شہر میں کوئی نو گوایریا نہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ بابا لاڈلا سمیت جس نے قانون چیلنج کیا اسے قانون کی گرفت میں لائیں۔ لیاری میں انٹری پر ڈی آئی جی کا بیان ناقابل قبول ہے۔ قائم مقام چیف سیکرٹری عارف خان نے عدالت کو بتایا کہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے بات ہوگئی۔ آئی جی سندھ کی تقرری کیلئے سمری وزیراعظم کو بھیجی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے لیاری سے متعلق رینجرز، پولیس اور چیف سیکرٹری بیٹھ کر لائحہ عمل طے کریں اور عدالت کوآ گاہ کریں۔ سپریم کورٹ نے ڈی آئی جی ساﺅتھ کو حکم دیا کہ ارشد پپو کے قاتلوں کو آج جمعہ تک گرفتار کیا جائے۔ قائم مقام آئی جی عدالت نے عدالت کو بتایا کہ لیاری میں اسلحہ بھی ہے اور جرائم پیشہ افراد بھی، صفائی کی ضرورت ہے۔ لیاری سے متعلق ڈی جی رینجرز نے تحریری رپورٹ جسٹس (ر) شاہد انور نے پیش کی۔ جسٹس خلجی نے ریمارکس دئیے رینجرز کی رپورٹ کے مطابق شہر میں لیاری جیسا پرامن علاقہ کوئی نہیں۔ چیف جسٹس نے ڈی جی رینجرز کا تحریری جواب آئی جی سندھ کو دیکر وضاحت طلب کی۔ عدالتی بنچ نے ریمارکس دئیے کہ کنٹریکٹ افسران کے سامنے آج جمعہ کو کیس ٹو کیس جائزہ لیکر فیصلہ کیا کیا جائیگا۔ آئی جی سندھ غلام شبیر شیخ نے کہا کہ پولیس جب بھی لیاری میں کارروائی کرتی ہے تو مزاحمت ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے نعمت اللہ خان ہمارے پاس کیس لیکر آئے، شہر میں زمینوں پر قبضہ ہورہا ہے، کراچی میں اسلحہ، قبضہ مافیا ختم اور نئی حلقہ بندی ہونے تک امن ممکن نہیں۔ آپ ڈی جی رینجرز سے پوچھیں لیاری پرامن ہے تو لاشیں اور ٹارچر سیل کیوں مل رہے ہیں۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ جعلی چالان پر زمین الاٹ کردی جاتی ہے اور خزانے میں رقم جمع نہیں ہوتی۔ آئی جی سندھ نے بیان دیا کہ 20 فروری سے 20 مارچ تک شہر میں 268 افراد قتل ہوئے۔ یہ افراد بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے دیگر واقعات کا شکار ہوئے۔ عدالت نے ایس پی انکروچمنٹ سیل عرفان بہادر کو آج طلب کرلیا ہے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ہدایت کی کہ لیز پر دی گئی زمینوں کے استعمال کی رپورٹ بھی جمع کرائیں لیز پر جو زمینیں دی گئیں اس مد میں قومی خزانہ میں کتنی رقم جمع ہوئی؟ کتنی زمینوں کی الاٹمنٹ شرائط پوری نہ ہونے کے سبب منسوخ کی گئی۔ کنسلٹنٹ ریونیو نے بتایا کہ اینٹی انکروچمنٹ سیل میں 145 کیسز رجسٹرڈ اور 263 ملزم گرفتار ہوئے 6 لاکھ 12 ہزار ایکڑ زمین کا فیلڈ سروے مکمل کرلیا جبکہ 15076 ایکڑ زمین اب بھی قبضہ مافیا کے پاس ہے جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا کہ آخر سندھ کی زمینوں کا سروے کیوں نہیں کراتے، کنسلٹنٹ ریونیو نے کہا کہ سروے کا کام جاری ہے کراچی کی زمینوں کا سروے جلد مکمل کرلیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بتایا جائے کہ شہر میں کتنی تجاوزات ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آئین کے تحت کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں درحقیقت چھوٹے بڑے کی تفریق ہے جو جلد ختم ہو جائے گی۔

مزیدخبریں