پارلیمانی کمیٹی میں تلخ جملوں کا تبادلہ ناصر اسلم اور ڈاکٹر عشرت کے نام زیر بحث رہے

Mar 22, 2013

اسلام آباد (آن لائن) نگران وزیراعظم پر اتفاق رائے کیلئے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں جہاں حکومت اور اپوزیشن ارکان کے درمیان تلخی پائی گئی۔ دوسری جانب نگران وزیراعظم کے حوالے سے مختلف حلقوں میں بھی قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں اور مختلف طبقات کا یہ نقطہ نظر ہے کہ جو حکمران نگران وزیراعظم کا تقرر نہیں کرسکتے وہ ملک کیا چلائینگے۔ اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن ارکان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ بعض شخصیات کا یہ کہنا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اقتدار میں ہے جبکہ مرکز میں اپوزیشن میں ہے وہ بیک وقت چاہتی ہے کہ اس کے مفاد کو مدنظر رکھا جائے، حکمران جماعت بھی ایسی شخصیت کا تقرر کرنا چاہتی ہے جو پارٹی مفادات کو مدنظر رکھے اب تک کی اجلاس کی کارروائی میں یہ واضح نہیں ہوسکا کہ کون مسائل پیدا کررہا ہے اور کس کی جانب سے لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا تاہم اس حوالے سے کئے گئے ایک سروے کے مطابق نئے وزیراعظم کے حوالے سے ایوان اقتدار ، بیورو کریسی اور اپوزیشن حلقوں میں بھی مختلف قیاس آرائیاں پائی جاتی ہیں سروے میں بعض شخصیات کا یہ کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) نے جو کمیٹی تشکیل دی ہے اس میں اس نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کسی رکن کو منتخب نہیں کیا جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی سیاست پر قائم ہے۔ دوسرے روز کا اجلاس جب شروع ہوا تو چوہدری شجاعت حسین نے (ن) لیگ کے قائد نواز شریف کے اخبارات میں چھپنے والے بیان کو غیر سنجیدہ قرار دیدیا جس پر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ قمر الزمان کائرہ کا بیان بھی غیر دانشمندانہ ہے اس حوالے سے فاروق ایچ نائیک اور خواجہ سعد رفیق میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔ چودھری شجاعت حسین نے کہا کہ کسی کو بھی نگران وزیراعظم بنا دیں فیصلہ کمیٹی میں ہونا چاہیے۔ پرویز رشید نے کہا کہ مخصوص ٹولہ سیاستدانوں کی ناکامی کا پروپیگنڈا کررہا ہے۔ سروے کے مطابق نگران وزیراعظم کا معاملہ پارلیمانی کمیٹی تک لے جانے کا ذمہ دار اپوزیشن رہنما چودھری نثار کو ٹھہرایا جارہا ہے۔ سرو ے کے مطابق نگران وزیراعظم کے حوالے سے جہاں قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں وہاں حکمران کی اہلیت بارے بھی کئی سوالات اٹھ رہے ہیں اور یہ کھلے عام کہا جارہا ہے کہ سیاستدان بادی النظری کا مظاہرہ نہیں کررہے جس سے دنیا بھر میں ملکی سیاست کے حوالے سے بھی منفی تاثر جارہاہے۔ اجلاس میں چودھری شجاعت نے یہ دھمکی بھی دی کہ پارلیمانی کمیٹی نے فیصلہ نہ کیا تو وہ اس عمل کا حصہ نہیں رہینگے۔ اجلاس میں جسٹس (ر) ناصراسلم زاہد اور ڈاکٹر عشرت حسین زیادہ وقت زیربحث رہے حکومتی اوراپوزیشن ارکان نے دونوں شخصیات کے حوالے سے ایک دوسرے کو دلائل دیئے۔ ذرائع نے این این آئی کو بتایا کہ حکومتی ٹیم ڈاکٹرعشرت حسین کے نام پر زور دیتی رہی اور موقف اختیار کیا کہ ڈاکٹرعشرت حسین انتظامی امور کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں نگران دور حکومت میں وہ عالمی مالیاتی اداروں سے اہم بات چیت کرسکتے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے ارکان جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد کی شخصیت کے حوالے سے دلائل دیئے اورکہا کہ ان کی شخصیت بے داغ ہے حکومت کی سابق حلیف جماعت ایم کیو ایم نے بھی ان کان ام تجویز کیا ہے اور وہ نگران وزیراعظم کے طور پر موزوں ترین امیدوار ہیں شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بناسکتے ہیں مسلم لیگ ن کے ارکان کاموقف تھا کہ ڈاکٹر عشرت حسین کو نگران حکومت میں وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز کیا جاسکتا ہے جو نگران وزیراعظم کی مشاورت سے ملکی معیشت کے حوالے سے خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔ جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار خان کھوسو اور رسول بخش پلیجو کے ناموں پر کچھ دیر بحث کی گئی حکومتی ارکان نے رسول بخش پلیجو کے حوالے سے آگاہ کیا کہ وہ قابل احترام شخصیت ہیں مگر کمیٹی نے سیاسی وابستگی نہ رکھنے کے حوالے سے جو اصول طے کیا ہے وہ اس پر پورا نہیں اترتے مسلم لیگ ن کے ارکان نے جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار خان کھوسو کے حوالے سے کہا کہ وہ پیپلزپارٹی کی جانب جھکاﺅ رکھتے ہیں ان کا ماضی اس کا ثبوت ہے دونوں طرف کے ارکان ایک دوسرے کو قائل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے مسلم لیگ ن کے ارکان نے حکومتی ناموں کے حوالے سے چند اہم سوالات کئے جن کاجواب حکومتی رکن فاروق ایچ نائیک (آج)جمعہ کوکمیٹی کے اجلاس میں دیں گے۔

مزیدخبریں