معاشرے میں تبدیلی یوں بھی لائی جا سکتی ہے؟

یہ ایک پاکستانی نوجوان لڑکی اور ایک پاکستانی نوجوان لڑکے کی کہانی نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ایسے واقعات ہیں جن کی میں خود چشم دید گواہ ہوں۔ ایک یونیورسٹی میں پڑھنے والی طالبہ لائق فائق اور خوش لباس تھی اور اس کا نظریہ پاکستان کی ان نوجوان لڑکیوں یا خواتین کی طرح ہی تھا کہ کفارکے معاشرے میں مسلم خواتین کی الگ شناخت کے لئے ”چادر“ سے ڈھانپنے کا حکم دے دیا گیا تھا اور چہرہ کُھلا رکھنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ لہٰذا یہ لڑکی بھی صاحبہ¿ کردار اور نماز روزہ کی پابند ہونے کے باوجود خود کو ”بُرقعہ“ یا ”عبایا“ کی پابند نہیں سمجھتی تھی ویسے ”برقعہ“ تو اب دکھائی ہی نہیں دیتا لیکن لڑکیاں عبایا شوق سے اوڑھ لیتی ہیں اور عبایا میں بھی سعودی اور قطری خواتین کی طرح خوبصورت ڈیزائن اور حتیٰ کہ ڈائمنڈ اور پرل سے آراستہ عبایا بھی دکھائی دیتے ہیں۔ قطر کی ایک مارکیٹ کا وزٹ کرتے ہوئے مجھے بڑی سی گاڑی سے اُترتی ہوئی ایسی عربی خواتین بھی نظر آئی تھیں جنہوں نے ایسے عبایا زیب تن کئے ہوتے تھے کہ جو پُشت سے اتنی لمبائی رکھتے تھے کہ انہیں کسی نہ کسی کنیز کو ساتھ ساتھ چلنے کی ضرورت محسوس ہو سکتی تھی جبکہ ہمارے جیسے ملکوں کے مسائل میں صبح سویرے گھروں سے دفتروں تک مشقت کیلئے نکلتی ہوئی خواتین کیلئے یہ سب ممکن نہیں ہے۔ یونیورسٹی میں پڑھنے والی وہ طالبہ ایک دن عبایا میں نظر آئی اور اس طرح اس کے خیالات تبدیل ہوئے کہ اب وہ ہمہ وقت ہی عبایا میں نظر آنے لگی۔ میرا دل چاہنے لگا کہ اس تبدیلی کی وجہ دریافت کروں۔ بات چیت کرنے پر معلوم ہُوا کہ یونیورسٹی میں ایک بڑے سکالر کے لیکچر نے اس کی زندگی میں یہ مثبت تبدیلی پیدا کر دی ہے اور یہ تبدیلی کسی اور ذرائع یا زبردستی سے ہونا ممکن نہیں تھی۔ جن سکالر کا اس نے لیکچر سُنا ان کا نام بھی اس بچی کو ٹھیک طرح سے یاد نہیں تھا مگر میرے لئے ان اجنبی سکالر کا یہ معجزہ کافی تھا کہ جن کی پُرتاثیر گفتگو اور بھرپور مو¿قف نے اس لڑکی کے ذہن سے ہر طرح کا ابہام صاف کر کے ایک شفاف راستہ اسے دکھا دیا تھا۔ ایک ایسا راستہ جس پر وہ اپنی خوشی اور مرضی سے چلنے پر تیار تھی۔ میں اس بچی کے چہرے پر جگمگاتی ہوئی خوشی اور روشنی دیکھ کر یہ سوچنے لگی کہ اگر یہی تبدیلی زبردستی اور جبر کے ذریعے ممکن بنانے کی کوشش کی جاتی تو یونیورسٹیوں میں ہی ایسی لڑکیاں بھی موجود ہیں کہ جو سخت مو¿قف رکھنے والے والدین کے سامنے یا پردہ ہو کر نکلتی ہیں اور کالج یا یونیورسٹی میں جا کر بُرقعہ یا عبایا ایک طرف رکھ کر سہیلیوں کے ساتھ جہاں جی چاہتا ہے گھوم پھر کر آ جاتی ہیں۔ ان لڑکیوں کی نسبت مجھے وہ بچی زیادہ پُراعتماد اور خوش دکھائی دی جس نے اپنی مرضی سے اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا تھا اور جس کی وجہ وہ سکالر تھے کہ جنہوں نے اسلام کا مثبت اور خوبصورت چہرہ دکھا کر اس کے ذہن کو اس حق میں تبدیل کر دیا تھا کہ عبایا یا چادر لینے کا فیصلہ خود اسی لڑکی کے وقار میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ عورت کو اپنی الگ پہچان پر فخر محسوس ہونا چاہئے۔ طالبان کو شریعت کے نفاذکیلئے اپنی شخصیت اور کردار سے اس سکالر کی طرح کے لیکچرز‘ فورمز اور تعلیم و تربیت کا ایسا آغاز کرنا ہو گا کہ جس کے ذریعے پاکستانی نوجوان قرآن و سنت کی طرف زیادہ راغب ہو سکیں۔ ورنہ ابھی تک تو طالبان کے نام کے ساتھ لوگ خوفزدہ ہونے لگ جاتے ہیں۔
 میرے کالم میں دوسری سچی بات اس نوجوان کی ہے جو ایک ہسپتال میں کام کرتا ہے اور ایمرجنسی میں مرتے سسکتے مریضوں کی مرہم پٹی کرتا ہے اور درد سے تڑپتے مریضوں کے جسم میں آہستہ روی سے سرنج کے ذریعے وہ انجکشن لگا دیتا ہے کہ جس کے اندر کی دوا مریض کو نئی زندگی عطا کر دیتی ہے۔ کل میرے گھر کام کرنے والی خاتون کی طبعیت خراب ہو گئی میں اسے لے کر ڈاکٹر کے پاس گئی اس نے معائنہ کر کے دو انجکشن لگوانے کا مشورہ دیا۔ میں ایمرجنسی میں پہنچی تو ایک نوجوان بلیو جینز پر سفید شرٹ پہن کر مستعدی سے کام کر رہا تھا۔ میرے ساتھ جانے والی خاتون کو سانس لینے میں کافی دقت محسوس ہو رہی تھی اگر اسے فوراً انجکشن نہ دئیے جاتے تو کچھ بھی ہو سکتا تھا، اسے الرجی دمے کا اٹیک تھا۔ اس نوجوان لڑکے نے مریضہ کو تسلی دے کر بٹھایا اور اس کے سامنے بیٹھ کر سرنج اور اس میں لگی ہوئی سوئی کے خوف سے بچانے کیلئے چند جملے بھی بولے اور بسم اﷲ الرحمن الرحیم پڑھ کر انجکشن لگایا اس لڑکے کو یہ الفاظ کہ ”شروع کرتا ہوں اﷲ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے“ کہنے پر کسی نے مجبور نہیں کیا تھا اور نہ ہی ہسپتال والوں نے اس کی میڈیکل کی ڈیوٹی میں شامل کیا تھا مگر اﷲ پاک کا نام لے کر کام کرنا اس کی سرشت مزاج اور تربیت میں شامل تھا اور اگر یہ کلمات پڑھنا اس کی ڈیوٹی میں شامل ہو جاتا تو شاید وہ ادا کرنا بھول بھی جاتا۔

ای پیپر دی نیشن