23مارچ کو ہر سال یومِ پاکستان کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ ہمارے لئے یہ دن دو نقطہ ء ہائے نظر سے اہمیت رکھتا ہے۔ ایک تو یہ کہ ٹھیک 74برس قبل اسی روز ایک تاریخی جلسہء عام میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تھی اور دو قومی نظریے کو ایک لحاظ سے جغرافیائی سانچے میں ڈھال دیا گیا تھا۔ اس تاریخ ساز جلسہ ء عام سے خطاب بابائے قوم قائداعظم ؒ نے کیا تھا اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس جلسہ ء عام کو دو قومی نظریہ پر ایک ریفرنڈم کا درجہ حاصل ہوا۔ علامتی طور پر مسلمانانِ برصغیر نے یک زبان ہو کر دنیا کو بتا دیا کہ ’’ ہم ایک قوم ہیں۔‘‘ یہ وہ الفاظ ہیں جو تین برس بعد بابائے قوم نے برطانوی صحافی اور مصنف بیورلی نکلز کو انٹرویو دیتے ہوئے دہرائے۔دوسری اہمیت اس دن کی یہ ہے کہ اسی روز 58برس قبل پاکستان کو ایک آئین دے کر اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا اور اسے دو جغرافیائی یونٹوں کا وفاق بنا کر دنیا پر واضح کردیا گیا کہ اس کے مغربی بازو صوبائی ولسانی شناختوں کا گہوارہ بننے نہیں دیا جائے گا اور اس کی پوری آبادی مختلف زبانیں بولنے اور مختلف نسلی پہچان رکھنے کے باوجود ایک ہی قومی شناخت رکھے گی۔ اور عملی طور پر صرف اور صرف پاکستانی کہلائے گی۔ یہ بازو مغربی پاکستان کہلایا ٗ اور دوسرا بازو مشرقی پاکستان بن گیا ۔ یہ اور بات ہے کہ مشرقی پاکستان شروع سے ہی مشرقی پاکستان تھا اور اس کی پاکستانی شناخت پر زور دینے کے لئے اسے مسلم بنگال یا مشرقی بنگلال کہنے کا آپشن ترک کردیا گیا تھا۔ اس موضوع پر میں اپنے ایک گزشتہ کالم میں بڑی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ روشنی ڈال چکا ہوں۔ یہاں اس پر اپنا قلم میں نے ایک تو یومِ پاکستان کی مناسبت سے اٹھایا ہے اور ثانیاً اس وجہ سے بھی کہ آج کی دنیا میں سقوطِ ڈھاکہ جیسی ایک اور کہانی ابھر کر سامنے آرہی ہے۔ میرا اشارہ کریمیا کی طرف ہے جو کل تک یوکرین کا ایک حصہ تھا اور آج بالکل سقوطِ مشرقی پاکستان والے انداز میں یوکرین سے الگ ہو کر اصولی طورپر ایک خود مختار اکائی اور عملی طور پر روس کا حصہ بن چکاہے۔
یوکرین کے لوگ یقینی طور پر سقوطِ مشرقی پاکستان یا سقوطِ ڈھاکہ کے انداز میں کریمیا کی علیحدگی کو سقوطِ کریمیا یا سقوطِ سویستوپول کا نام دے رہے ہوں گے۔
اگر جغرافیائی حجم اور آبادی کے فرق کو سامنے نہ رکھا جائے تو سقوطِ کریمیا اور سقوطِ مشرقی پاکستان میں بہت ساری مناسبتیں دیکھی جاسکتی ہیں۔
مشرقی پاکستان میں غالب آبادی بنگالی نسل کی تھی۔ کریمیامیں غالب آبادی روسی نسل کی ہے۔ صرف 21فیصد نسلی طور پر یوکرینی ہیں۔17فیصد مسلمان ہیں اور باقی سب روسی نسل کے ہیں۔مشرقی پاکستان کے معاملے میں اہم بات یہ تھی کہ دونوں بازوئوں کے درمیان سینکڑوں میلوں کا فاصلہ تھا اور درمیان میں ایک ایسے ملک کا وسیع پھیلائو تھا جس کا پاکستان کے نام تک سے دشمنی کا رشتہ تھا۔
کریمیا کے معاملے میں ایسی بات تو نہیں یہ ایک خلیج ہے جو ایک طرف یوکرین کے ساتھ اور دوسری طرف روس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اس کا پورا ساحل گرم پانیوں کا خزانہ قرار دیا جاسکتاہے۔ ماضی میں کریمیا سلطنت ترکی کا حصہ تھا۔ پھر جنگوں کے ایک فیصلہ کن سلسلے نے اسے روس کا حصہ بنا دیا۔ جب روس کی زار شاہی سوویت یونین میں تبدیل ہوئی تو بھی کریمیا روس کا ہی حصہ رہا۔ خروشیف کے دور میں البتہ اسے تحفے کے طور پر یوکرین کو دے دیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کریملین کا طوطی بولتا تھا اور عام طور پر یہی سمجھا جاتا تھا کہ دنیا اسی انداز میں ہمیشہ دو بلاکوں یعنی مغربی بلاک اور سوویت بلاک میں تقسیم رہے گی جس انداز میں کبھی قیصر و کسریٰ کے بلاکوں میں تقسیم رہی تھی۔
لیکن تاریخ کا سبق واضح طور پر یہی رہا ہے کہ ہر عروج کو کسی نہ کسی موڑ پر زوال کا زخم بھی کھانا اور سہنا پڑتا ہے۔ گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں سوویت یونین کے حصے بخرے ہوگئے تو یوکرین نے ایک آزاد اور خود مختار ملک کے طور پر جنم لیااور کریمیا اس کاحصہ تھا۔ تقریباً دو دہائیاں بعد یوکرین کے نقطہ ء نظر سے سقوطِ کریمیا کا سانحہ پیش آیا ہے۔ اس نئی صورتحال سے دو سبق ملتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اگر کسی خطے یا علاقے میں نسلی شناخت کی چنگاریاں موجود رہیں اور انہیںہوا کے جھونکے شعلوں میں تبدیل کرتے رہیں تو وہ کسی بھی مرحلے یا موڑ پر کسی مکتی باہنی اور شیخ مجیب الر حمان یا کسی روسی نیشنل پارٹی اور سرجی ایکسیونوف کو جنم دے سکتی ہیں ۔ کریمیا کے شیخ مجیب الرحمان کا نام سرجی ایکسیونوف ہے۔ شیخ مجیب الرحمان کا پلیٹ فارم عوامی لیگ تھا۔ سرجی ایکسیونوف نے اپنا پلیٹ فارم روسی نیشنل یونٹی پارٹی کو بنایا۔اس سال فروری کے آخری ہفتوں میں جب یوکرین میں کرپشن کے خلاف ایک زبردست عوامی تحریک نے صدر وکٹریا نوکوچ کو بھاگنے پر مجبور کردیا تو یہ بات دنیا پرواضح ہونے لگی کہ یوکرین بھی روسی اثرورسوخ سے نکلنے والا ہے۔ صدر وکٹریا نوکوچ کو روسی صدر پیوٹن کا بھرپور اعتماد حاصل تھا لیکن کرپشن اتنے بڑے پیمانے پر کی تھی کہ یوکرین اقتصادی تباہی کے کناروں کو چھونے لگا تھا۔ یہ دیکھ کر کہ یوکرین پر وکٹریا نوکوچ کا کنٹرول اب بحال نہیں ہوسکے گا پیوٹن نے کریمیاکے علیحدگی پسندوں کو راست اقدام کرنے کا اشارہ دے دیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سرجی ایکسیونوف نے اس سال کے آغاز میں ہی اپنی ایک فوج تیار کرنی شروع کردی تھی جو روسی یوتھ فورس کے جوانوں پر مشتمل تھی۔ ابتداء میں دو سو مسلح افراد کا یونٹ قائم ہوا جو بڑھتے بڑھتے سات سو تک پہنچ گیا۔ پھر اس میں روس کے بھیجے ہوئے کوزک جوان بھی آملے۔
10مارچ کو اس فوج نے سویستوپول کی علاقائی پارلیمنٹ پر یلغار کی اور اسے اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ پھروہاں سرجی ایکسیونوف کو بلایا گیا اور پارلیمنٹ میں جو شخص بھی موجود تھا اس نے سرجی ایکسیونوف سے وفاداری کا حلف اٹھایا۔ اسی موقع پر کریمیا کی خود مختاری کی قرارداد بھی منظور کی گئی اور اعلان کیا گیا کہ 16مارچ کو ہونے والے ریفرنڈم کے نتیجے میں کریمیا اپنے آبائی وطن روس کا حصہ بننے کے لئے آزاد ہوگا۔
یہاں ایک اہم سوال ابھرے بغیر نہیں رہتا کہ اگر کریمیا میں پارلیمنٹ نام کی کوئی چیز نہ ہوتی اور سویستوپول میں یوکرین کی اپنی فوج اتنی تعداد میں موجود ہوتی کہ سرجی ایکسیونوف کی تیار کردہ فورس کو زیر کرسکتی تو کیا وہاں سقوطِ ڈھاکہ جیسی داستان دہرائی جاسکتی تھی ؟ یہ سوال میرے خیال میں ہمارے ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہئے جو Missing Personsیعنی گمشدہ لوگوں کے معاملے میں انسانی حقوق کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات میں بلوچستان کے حوالے سے لکھ رہا ہوں ۔ ہمیں اس زمینی حقیقت سے آنکھیں کسی بھی صورت میں نہیں چرانی چاہئیں کہ بلوچستان میں بھی ایسے علیحدگی پسند ہتھیار بند ہوچکے ہیں اور بیرونی امداد اور اسلحے کے زور پر عسکری کارروائیاں کرنے میں پیش پیش ہیں جنہیں پوری قوت کے ساتھ کچلنا پاکستان کی سا لمیت کے لئے ناگزیر ہے۔پاکستا ن کی سا لمیت اور بقاء انسانی حقوق کے ہر تصور سے زیادہ مقدّس ہے۔ جو بندوق بھی کسی حق یا اصول کی آڑ میں پاکستان کی سا لمیت کے خلاف اٹھے اسے خاموش کردینے کی قوت بلوچستان کی سرزمین پر ہر وقت موجود رہنی چاہئے۔ ملک ہمیشہ افراد کے حقوق سے بلند تر ہوتے ہیں اور ہونے چاہئیں۔ ہمارے لئے کریمیا کے واقعات ایک سبق کا درجہ رکھتے ہیں۔یہاں میں اس سارے معاملے کے ایک اور پہلو کی طرف آنا چاہتا ہوں۔ چند برس قبل جب روسی صدر پیوٹن روس پر اپنے کنٹرول کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا تھے تو میرا خیال نجانے کیوں 1930ء سے 1933ء تک کی جرمن ری پبلک کی طرف جایا کرتا تھا۔ مجھے پیوٹن کے اندر ایک ایسا قوم پرست تڑپتا اور متحرک ہوتا نظر آرہا تھا جسے امریکہ کے ہاتھوں ماسکو کی قوت کی شکست و ریخت اسی انداز میں نامنظور تھی جس انداز میں پہلی جنگ عظیم کے بعد شکست خوردہ جرمنی کے ایک خواب پرست جنونی نوجوان ایڈولف ہٹلر کو اپنی سرزمین کی تضحیک اور بے حرمتی نامنظور تھی۔مجھے پیوٹن کی شخصیت میں روس کا ایڈولف ہٹلر انگڑائیاں لے کر اٹھتا نظر آیا کرتا تھا۔
آج کے عالمی منظرنامے نے میرے خیال کو درست ثابت کردیاہے۔ دنیا درحقیقت ایک ایسے دور کی طرف بڑھ رہی ہے جس میں ٹاس کئے جانے والے سکے کے دونوں طرف انکل سام کی تصویر نہیں ہوگی۔ دوسری طرف تصویر پیوٹن کی ہوگی۔مغربی مبصرین اپنے آپ کو بھی او ردنیا کو بھی یہ یقین دلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ روس کی معیشت پیوٹن کے خوابوں کا ساتھ نہیں دے سکے گی۔ اور طاقت کی دوڑ میں بالآخر پیوٹن کو مات ہوجائے گی۔مات تو ہٹلر کو بھی ہوئی تھی مگر کون نہیں جانتا کہ مات کھاجانے سے پہلے ہٹلر نے دنیا کا نقشہ تبدیل کرکے رکھ دیا تھا۔ ہٹلر کے بارے میں جوکچھ بھی لکھا گیا ہے اس کے دشمنوں نے لکھا یا لکھوایا ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ کیا تھا اور اس نے خاک شدہ جرمنی کو راکھ کے ڈھیر سے قوت و حشمت کے کس مقام پر پہنچا دیا اس کا اعتراف چرچل نے اپنی ایک تصنیف میں اِن الفاظ کے ساتھ کیا:
’’ ہٹلر جنونی تھا پاگل تھا ٗ وحشی تھا ٗ قاتل تھا۔ سب کچھ تھا۔ مگر اس حقیقت کو میں کیسے جھٹلائوں کہ اس کی قیادت میں پانچ کروڑ آبادی کے جرمنی نے جنگ عظیم میں اپنے ایک سپاہی کے عوض باقی دنیا کے پانچ سپاہی ہلاک کئے۔؟ نازی جرمنی اور ہٹلر کو ہرانے کے لئے آزاد دنیا نے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے۔‘‘
میرا تبصرہ یہاں یہ ہے کہ تاریخ کو وہی لوگ جنم دیتے اور تبدیل کیا کرتے ہیں جن کے اندر قدرت نے خواب دیکھنے کی صلاحیت بدرجہ ء اتم پیدا کررکھی ہوتی ہے۔