عالم اسلام میں مسلمان ہیں، اسلام نہیں ہے

 ایک بھارتی گلوکار ہے ۔ ہنس راج ہنس دیکھنے اور سننے میں وہ ایک صوفی گلوکار لگتا ہے مگر ایک دوست کہنے لگا کہ وہ تو ہندو گلوکار ہے۔ میں سوچتا رہا کہ وہ کیسے ہندو ہے ہندو تنگ نظر اور تنگ دل ہے۔ صوفی تو کشادہ دل ہوتا ہے۔ اسلام صوفیوں نے پھیلایا ہنس راج نے خود اسلام قبول کیا ہو گا۔ وہ اتنے ظرف والا ہے کہ جب وہ کوئی حرف ادا کرتا ہے تو اس میں ایک نامعلوم سی تاثیر اور اپنائیت بھر دیتا ہے۔ پھر خبر آئی کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے بہت لوگ خوش ہوئے مجھے بھی اچھا لگا۔ میرا خیال ہے کہ ایک سچا مسلمان ہی اچھا انسان ہوتا ہے۔ ہم مسلمان تو ہیں مگر اچھے انسان نہیں۔ پوری دنیا میں ایک ارب سے زیادہ مسلمان ہونگے مگر وہ ایک قوم نہیں بن سکے۔ مسلمان قوم وہ تفرقوں ‘ نسلوں ‘ ذاتوں ‘ مذہبی گروپوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ یورپ میں بھی بہت ملک ہیں۔ مگر لگتا ہے کہ وہ ایک ملک ہے ہم اتنے زیادہ مسلمان ہیں مگر اپنے لئے اپنے اللہ کے لئے کچھ نہیں کر سکے۔ پوری دنیا میں کوئی ذلیل و خوار ہو رہا ہے۔ وہ مسلمان ہے۔ پہلے مسلمان ایک قوم تھے انہیں ایک ملک کی تلاش تھی۔ اب ان کے پاس ملک ہے مگر قوم کی تلاش ہے“ ابھی مرنے والے سکھ دانشور خوشونت سنگھ نے کہا تھا 1947ءسے پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے مگر سب غیر اسلامی سرگرمیاں یہاں ہو رہی ہیں اور غیر اسلامی حرکات ہی غیر انسانی حرکات ہیں۔ ہنس راج ہنس کے مسلمان ہونے پر کوئی اچھی بات عالم اسلام کے لئے ہو۔ مسلمانوں کے لئے ہو تو بڑی بات ہے۔ وہ ایک اچھا ہی انسان ہے تو لگتا ہے کہ اچھا مسلمان بھی ہو گا۔ اربوں مسلمان کچھ نہیں کر سکے تو ہنس راج ہنس کیا کرے گا۔ اللہ اُسے توفیق دے کہ وہ کچھ کر سکے۔
میں نے جب پہلی بار اُسے سنا تو دم بخود رہ گیا۔
مجھے ملامتی صوفی بابا محمد یحییٰ خان اس کے پاس لے کے گئے تھے۔ آپ یقین کریں کہ ہنس راج سٹیج سے اتر کر ہمیں ملنے کے لئے آ گئے کہنے لگے کہ مجھے آپ دونوں میں کوئی صوفی چھپا ہوا لگتا ہے۔ میں نے کہا تم میں صوفی صاف نظر آ رہا ہے۔ کبھی وہ مجھے ملے تو میں ان سے پوچھوں کہ مسلماں ہونے کے لئے کیا اندر سے پھوٹا اور وہ اب مسلمان ہو کے کیا کرنا چاہتے ہیں۔ پھر انہیں میرے پاس ایک دوست لے کے آئے کہ انہیں سر پر باندھنے کے لئے پگڑی کی ضرورت ہے وہ
کہاں سے ملے گی۔ میں نے کہا کہ آپ میرے پاس آئے ہو اور دکان کا پوچھتے ہو۔ میں آپ کو پگڑی پیش کرتا ہوں۔ یہ پگڑی پہن کر آپ گائیں گے تو سر مستی میں دماغ میں تڑپنے لگے گی۔ ہنس راج نے بتایا کہ میرے مرشد پگڑی باندھتے ہیں۔ ان کے پاس پگڑی باندھ کر جانا چاہتا ہوں۔ میں نے انہیں دو پگڑیاں پیش کر دیں اور کہا کہ اپنے مرشد کو میرا سلام کہنا خبر آئی ہے کہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں۔ نجانے اس لمحے میں ہنس راج نے پگڑی باندھی ہوئی تھی۔ یا نہیں۔ بابا محمد یحییٰ خان اسے بہت پسند کرتے ہیں اور ناہید صدیقی کو بھی بہت پسند کرتے ہیں۔ وہ کلاسیکل رقص میں صوفیانہ ادائیاں لے کے آتی ہیں۔ ایک رقص درویش بھی ہے جو ترکی میں مولانا روم کے شہر قونیہ میں ہر رات کو ہوتا ہے۔ میں ترکی اس ترنگ میں گیا تھا۔ پچھلے دنوں فاروق ستار نے صوفیا کانفرنس کرائی۔ ایم کیو ایم کا یہ فنکشن اچھا تھا یہاں رقص درویش بھی دکھایا گیا۔ رقص درویش کے نام سے نامور شاعر عباس ناش کا شعری مجموعہ بھی ہے۔ عباس بہت خوبصورت گہری اور تخلیقی شاعری کرتا ہے نجانے کیوں میری خواہش ہے کہ میں کسی دن ہنس راج کو پگڑی باندھے ہوئے دیکھوں اور اسے اسی حال میں گاتے ہوئے بھی سنوں۔
میں اس الجھن سے نہیں نکلا ہوں کہ ایک ارب سے زیادہ مسلمان کچھ نہیں کر سکے۔ وہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے تو یہ ہنس راج کیا کرے گا؟ اتنا شاندار ماضی دیکھیں سب لوگ اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں مگر ان کی نظر اپنے مستقبل پر نہیں ہے۔ اس وقت جتنا ظلم بے انصافی دہشت گردی قتل و غارت عالم اسلام میں ہو رہی ہے۔ کہیں نہیں ہو رہی ہے عراق‘ لیبیا‘ بحرین‘ مصر‘ شام میں کیا ہوا ہے۔ فلسطین میں کیا ہو رہا ہے۔ کشمیر میں اور پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ یہ سوال ہے اور جواب گم ہے۔
جامعہ اظہر مصر کے سابق سربراہ عالم دین یورپ گئے تھے واپس آئے تو ائرپورٹ پر صحافیوں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے یورپ میں کیا دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے یورپ میں اسلام دیکھا مگر مسلمان نہیں دیکھے۔ ان سے دوبارہ پوچھا گیا کہ آپ نے مصر میں کیا دیکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں میں نے مسلمان دیکھے مگر اسلام نہیں دیکھا۔
یورپ والے جھوٹ نہیں بولتے کم نہیں تولتے۔ ملاوٹ نہیں کرتے۔ وطن دشمنی نہیں کرتے۔ جبکہ ہم یہ سب کام کرتے ہیں۔ مجھے روحانی سکالر واصف علی واصف کی دعا یاد آتی ہے۔ ”اے خدا اسلام کو مسلمانوں سے بچا“ خدا کی قسم اتنا نقصان اسلام کو کافروں نے نہیں پہنچایا جتنا مسلمانوں نے پہنچایا ہے۔ مسلمانوں خدارا مسلمان ہو جا¶!

ای پیپر دی نیشن