اسلام آباد (نیٹ نیوز+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) 35 لاپتہ افراد کے مقدمے میں مالا کنڈ تھانے میں حراستی مرکز کے نائب صوبیدار امان اللہ کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر کی نقل سپریم کورٹ میں پیش کر دی گئی۔ سماعت کے موقع پر پیش کی گئی اس ایف آئی آر میں شکایت کنندہ کے طور پر وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا نام درج کیا گیا تھا۔ صوبہ خیبر پی کے کے ایڈووکیٹ جنرل عبدالطیف نے عدالت میں ایف آئی آر پیش کی جو جمعرات کو آئین کی دفعہ 346 سی آر پی سی کے تحت درج کی گئی تھی۔ عدالت نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قانون حرکت میں آگیا ہے۔ مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ تفتیش کے بعد ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ صوبائی اور مرکزی حکومت یقینی بنائے کہ اس معاملے کی تحقیقات شفاف ہوں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ تفتیش جلد مکمل کر کے چالان عدالت میں پیش کریں۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ لاپتہ افراد کے معاملے میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے۔ انہوں نے کہا جو لوگ ابھی تک لاپتہ ہیں انہیں تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے عدالت کو بتایا کہ میاں محمد اجمل پر مشتمل یک رکنی کمیشن نے کام شروع کر دیا ہے۔ خیال رہے کہ اس یک رکنی کمیشن کا قیام دس دسمبر 2011 کے عدالتی فیصلے کے بعد کیا گیا تھا جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ مالا کنڈ حراستی سینٹر سے لاپتہ ہونے والے 35 قیدی فوجی حکام کی حراست میں ہیں اس لیے لاپتہ افراد کو سات دن میں عدالت کے سامنے پیش کیا جائے اور ملوث فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ان میں سے بارہ افراد کو عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے مگر 23 افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔ سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو کمشن کی رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ اگر حکومت محسوس کرے تو آرمڈ فورسز اور پولیس کے اختیارات کا تحفظ کرنے والے تحفظ پاکستان آرڈیننس میں ترمیم بھی کی جا سکتی ہے۔ عدالت نے خبیر پی کے کے ایڈووکیٹ جنرل یوسف زئی کو ہدایت کی تھی کہ وہ صوبائی حکومت سے اس ایف آئی آر سے متعلق تفصیلات لے کر عدالت کو آگاہ کریں۔ سپریم کورٹ نے 35 لاپتہ افراد میں سے 12 کی بازیابی کے بعد بقیہ افراد کی بازیابی کیلئے تین ہفتوں میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے جامع رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ یک رکنی کمشن سے بھی ایک ماہ میں رپورٹ طلب کر لی گئی ہے۔ اٹارنی جنرل سلیمان اسلم بٹ نے ایف آئی آر کی کاپی پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مالاکنڈ تھانہ میں ایف آئی آر نمبر 11/2014 زیر دفعہ 346 دائر کردی گئی ہے جس میں کسی کو غیرقانونی اور خفیہ طور پر اٹھانے بارے بات کی گئی ہے۔ یک رکنی کمشن ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرے گا۔ عدالت نے اپنے احکامات میں کہا ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ لاپتہ افراد اور ذمہ داروں کیخلاف قانون کے مطابق ہی کارروائی کی جائے اور آئین و قانون پر عملدرآمد ریاست اور عدلیہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اگر لاپتہ افراد قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے جائیں تو ان کیخلاف آئین و قانون کے مطابق ہی کارروائی کی جائے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آج تک جتنے بھی کمیشن بنے ان کی رپورٹ جان بوجھ کر شائع نہیں کی گئی۔ یٰسین شاہ صرف صوبے کا ہی نہیں وفاق کا بھی شہری ہے اسلئے اس کے حقوق کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ریاست خود آئین و قانون کی پاسداری کرے۔ ہم نے بارہا جس بات کی جانب توجہ دلائی ہے وہ انسانی حقوق کا تحفظ ہے۔ عدالت نے توقع ظاہر کی کہ وفاقی حکومت اس معاملے کو منطقی انجام تک بھی پہنچائے گی اور بقیہ لاپتہ افراد کی بازیابی کو بھی یقینی بنائے گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ کسی بھی شہری کے حقوق کی خلاف ورزی نہ کی جائے، اس کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ عدالت نے مقدمے کی مزید سماعت تین ہفتے کیلئے ملتوی کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو حکم دیا ہے کہ جامع رپورٹ پیش کی جائے۔ یک رکنی کمیشن بھی ایک ماہ میں رپورٹ پیش کرے۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ کیس کی تفتیش کے بعد چالان کی نقل بھی عدالت میں پیش کی جائے امید کی جا سکتی ہے اب اصل ذمے داروں کے نام سامنے آ جائیں گے۔ حکومت کیس کی شفاف تحقیقات کو یقینی بنائے۔ ایف آئی آر کے مطابق مقدمہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 346 کے تحت درج کرایا گیا ہے اور ضابطہ فوجداری 346 غیر قانونی حراست میں رکھنے پر مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی فرد یا ادارہ قانون سے بالاتر نہیں، جب ریاست کوئی قدم اٹھائے تو اسے قانونی تحفظ دینا ضروری ہوتا ہے۔ قانون حرکت میں آ گیا ہے اب شفاف تحقیقات ہو گی۔ سپریم کورٹ نے راولپنڈی سے لاپتہ تاسف ملک کی اہل خانہ سے علیحدگی میں 26 مارچ کو ملاقات کرانے اور خیبر پی کے حکومت سے تاسف ملک کا طبی معائنہ کرکے میڈیکل رپورٹ 27 مارچ کو طلب کی ہے‘ عدالت نے کہا کہ چار فوجی افسروں کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت بھی 27 مارچ کو ہی کی جائے گی۔ جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ آئین اور قانون زیر حراست افراد سے ان کے لواحقین کی ملاقات پر کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ خاتون خانہ کو پریشان نہ کیا جائے۔ ان کے شوہر سے ان کی یقینی ملاقات کرائی جائے۔ شہریوں کی آزادی کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جسٹس اعجاز چودھری نے کہا حساس ادارے دو سال تک ہم سے جھوٹ بولتے رہے ہیں پھر بھی بندہ ان کے پاس سے ہی برآمد ہوا۔ ڈاکٹر عابدہ ملک کے وکیل انعام الرحیم نے عدالت کو بتایا کہ تاسف ملک کی حالت خراب لگ رہی ہے اس کے اہل خانہ سے ان کی علیحدگی میں ملاقات نہیں کروائی جا رہی بہتر ہوگا کہ عدالت تاسف ملک کی میڈیکل رپورٹ بھی طلب کرے اس پر عدالت نے سماعت 27 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے تاسف سے اس کی بیوی اور سسر کی ملاقات کرانے اور طبی معائنہ کرکے رپورت پیش کرنے کا حکم دیا۔
لاپتہ افراد کیس: نائب صوبیدار کے خلاف ایف آئی آر کی نقل پیش‘ قانون حرکت میں آ گیا‘ ملزم کیفر کردار تک پہنچائے جائیں: جسٹس جواد
Mar 22, 2014