لاہور (کامرس رپورٹر) اقتصادی ماہرین نے کہا ہے کہ سٹیٹ بنک کی جانب سے دو ماہ کیلئے مانیٹری پالیسی کے تحت ڈسکائونٹ ریٹ میں 0.5 فیصد کمی کا فائدہ حکومت اور بزنس کمیونٹی کو ہوگا ٹیکسوں میں بچتیں رکھنے والوں اور قومی بچت سکیموں میں سرمایہ کاری کرنیوالوں کے منافع میں کمی ہوگی۔ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی اور معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر میاں محمد اکرم نے کہا ہے کہ سٹیٹ بنک ڈسکائونٹ ریٹ میں 0.5 فیصد کمی کا فیصلہ غیر دانشمندانہ ہے، اسکا وزارت خزانہ کو فائدہ ہوگا ٹیکس چوری بڑھنے اور فوجی آپریشن کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث حکومت داخلی قرضے لے رہی ہے جس پر اسے اب کم سود ادا کرنا پڑیگا، اس فیصلے کا تاجر اور صنعتکار برادری کو بھی فائدہ ہوگا، بینکوں میں بچتیں رکھنے والے اور قومی بچت سکیموں میں سرمایہ کاری کرنیوالوں کے منافع میں کمی ہوگی۔ معیشت کی جو بنیادی خرابیاں ہیں ان میں بچتوں کی شرح کم ہونا اور سرمایہ کاری کی شرح کم ہونا شامل ہے گزشتہ 15 سال کے تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ شرح سود میں کمی سے سرمایہ کاری میں اضافہ نہیں ہوتا۔ سٹیٹ بنک کو چاہئے تھا کہ بنکوں کے سپریڈ کو کم کرکے 3.5 فیصد تک کرنے کے احکامات جاری کرتا جس سے بچتیں کرنیوالے افراد کے منافع میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا۔