آکٹوپس

ہمارا پیارا پاکستان ایک ایسے آکٹوپس (Octo Pus) کے چنگل میں پھنس چکا ہے جس کے آٹھ سمتی نوکیلے بازئوں نے پیر تسمہ پا کے مانند نہ صرف اسکی گردن کو دبوچ رکھا ہے بلکہ اسکے نوکیلے بازئوں کے تیز دھاری والے ناخن اسکے دل، دماغ، جگر غرض کہ اسکے جسد خاکی کے ہر حصے کو اس قدر زخمی کر چکے ہیں کہ کسی بھی محب وطن شخص کا بے اختیار یہ پکار اٹھنا باعث تعجب نہ ہو گا۔
تن ہمہ داغ داغ شد … پنجہ کجا کجا نہم
23 مارچ کو ہمارے حکمران یوم پاکستان کے موقع پر اسلام آباد میں شاندار پریڈ اور سیشن کا اہتمام کر رہے ہیں یقیناً یوم پاکستان پر اظہار تشکر قوم کے ہر فرد پر واجب ہے مگر بہت سے حلقوں کی طرف سے بجا طور پر یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ اہل ارباب و اختیار بتائیں کہ ہم نے گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود اور اسکی جان و مال، صحت، تعلیم اور روزگار کے تحفظ کیلئے کون سے کارنامے سر انجام دیئے ہیں۔ کونسی کامیابیاں حاصل کی ہیں جن کے عوض ہمارے حکمران پاک فوج کے چاک و چوبند دستوں سے 23 مارچ کے روز سلامی کے چبوترے پر کھڑے ہو کر سلامی لینے کے حق دار ہیں۔ پاکستان کی ریاست کے سینے میں جس ہشت نما آکٹوپس نے اپنے نوکیلے پنجے گاڑھ لئے ہیں اسکی موجودگی میں پاکستانی قوم کے ایک بہت بڑے حصے میں احساس زیاں اس قدر شدت اختیار کر چکا ہے کہ اس نے سنکیت (Cynicism) کی شکل اختیار کر لی ہے اور میرے سمیت بہت سے لوگ خصوصاً نئی نسل پاکستان کو ایک ناکام ریاست سمجھنے میں حق بجانب ہے جہاں سفارش، رشوت، اقرباء پروری، بے ایمانی، دھوکا بازی اور سرکاری اداروں میں میرٹ کی خلاف ورزی جیسے سنگین امراض نے اسکے وجود کو شدید خطرات سے لاحق کر دیا ہے۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت مایوسی اور قنوطیت کی شدید گرفت میں ہے۔ پاکستان کے ہشت نکاتی آکٹوپس کے ہر نوکیلے بازو پر ایک ایسا مافیا براجمان ہے جو کینسر کی مانند ہمارے قومی جسد خاکی کو ختم کر رہا ہے۔ 1۔ دہشتگردی 2۔ کرپشن 3۔ سیاسی جماعتوں کی عسکریت 4۔ مذہبی جماعتوں کی انتہا پسندی 5۔ بے حس حکمرانوں اور لیڈروں کی نا اہلی، غیر سنجیدگی اور ذاتی کاروباری ایجنڈے 6۔ اعلیٰ مقتدر طبقوں کی پراپرٹی اور سٹاک ایکسچینج میں سٹہ بازی جس نے پوری قوم کو ’’جواریا‘‘ بنا دیا ہے اور ہر شخص راتوں رات امیر ہونے کے خواب دیکھتا ہے اور پراپرٹی سٹاک اور سیاسی، مذہبی جماعتوں کے عسکری ونگز میں شامل ہو جاتا ہے 7۔ پولیس، بیورو کریسی اور ضلعی انتظامیہ کی حکمرانوں کی کاسہ لیسی اور لوٹ مار 8۔ سرمایہ داروں، صنعتکاروں، تاجروں کا کارٹل اور انکے حکومتی سرپرستوں کا کالا دھن سفید کرنے کیلئے سرمایے کا انخلاء اور پھر بیرونی ترسیلات کی آڑ میں واپسی۔
افسوس در افسوس جس تبدیلی اور ریاستی ڈھانچہ کی بہتری کا دعوی ہمارے حکمرانوں کی زبانیں کرتے ہوئے تھکتی نہیں‘ اس کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہماری تمام سیاسی اور مذہبی پارٹیاں اپنے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے جرائم پیشہ افراد جو سیاست کی آڑ میں اپنا دھندہ چلا رہے ہوتے ہیں یا مذہبی جماعتیں جو سیاست کی آڑ میں فرقہ واریت اور دہشتگردی کے غیر ملکی ایجنڈے کو بڑھا رہی ہوتی ہیں تو ایسے میں موجودہ وقت کی عسکری قیادت کس طرح تمام محاذوں پر پاکستان کی جنگ لڑ سکتی ہے جبکہ ریاست کی ہر شاخ پر ایسا الو بیٹھا ہوا ہے فوج کی پوری کوشش ہے کہ کراچی کو دہشت گردی سے نجات دلائے مگر سیاسی جماعتوں کی دلخراشی اور مصلحت پسندی بار بار آڑے آ رہی ہے اسی طرح دہشت گردی کے عفریت کیخلاف لڑنے کیلئے نہ صرف انکے پاس وسائل کی کمی ہے مگر حکومت کی جرأت نہیں ہے کہ وہ اپنے حلیفوں کیخلاف کسی قسم کا اقدام اٹھا سکیں۔ وزارت داخلہ نے کہاں مدرسوں کی جانچ پڑتال کی ہے جو عوام کو بغیر جدید اسلحہ دیئے کہا جاتا ہے کہ جہاں جہاں آپکے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اسکی حفاظت کی خود ذمہ داری اٹھائیں۔ کیسے ایک یا دو عام سے سپاہی مسجدوں، چرچوں اور سکولوں کی حفاظت کرتے ہوئے خودکش دھماکے روک سکتے ہیں۔ حکمرانوں کے شاہانہ طور طریقوں اور اپنے رشتہ داروں، خوشامدیوں اور سیاسی حواریوں کو نوازنے میں ملک کے وسائل کا اس قدر انتقاع ہو رہا ہے جس کا اس غریب ملک میں کوئی جواز نہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ اس ملک کے بالائی طبقات اس ملک کے وسائل کا بہت بڑا حصہ اپنے قبضے اور تصرف میں لئے ہوئے ہیں۔
ہمارے ارباب بست و کشاد اپنے عیوب اور اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی بجائے ملک میں غربت، ناداری، کرپشن اور انتہا پسندی سب کو غیر ملکی سازشوں کی پیداوار بنا رہے ہیں‘ خصوصاً ہر مذہبی، لسانی اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی کے فروغ کی ذمہ داری امریکہ پر ڈالنا ہمارا مشن بن چکا ہے کوئی ان بقراطوں سے یہ سوال کرے کہ کیا مذہبی انتہا پسندی امریکہ نے ایجاد کی ہے؟ ملک نے فوجی اقتصادی امداد کے زمرے میں امریکہ سے اب تک 71 ارب ڈالرز کی جو امداد لی ہے اور امریکہ میں پاکستان اپنے ٹیکسٹائل ایکسپورٹس سے جو سالانہ 10 ارب ڈالرز کما رہا ہے یا امریکی گندم کے بیج سے ہم نے جو سبز انقلاب کی راہ دریافت کی۔ امریکی اسلحے اور ایف 16 کی مدد سے ہم نے اپنے ملک کے دفاع کو جو مضبوط کیا تو کیا اسکے برعکس چین اور دوسرے ممالک نے بھی اس انداز میں پاکستان کی مدد کی۔ جہاں تک اس خطے میں امریکہ کے عزائم کا سوال ہے تو اس میں کوئی شک نہیں دنیا میں کوئی بھی ملک دوسرے ملک کی اس وقت تک معاشی اور فوجی مدد نہیں کرتا ہے جب تک اس ملک کے اپنے مفادات کا بھی اس میں تحفظ نظر نہ آ رہا ہو۔ لہذا کوئی بھی دوسرا ملک ہمارے ہاں کی غربت، جہالت، دہشتگردی اور کرپشن دور نہیں کر سکتا اس کیلئے اصل حکمرانوں کی ضرورت ہے جو وسائل کی تخلیق اور ان کا بھرپور استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں مگر اس کیلئے ضروری ہے کہ ریاست میں امن و امان ہو۔ دہشتگردی کا خاتمہ ہو اور سرمائے کی تشکیل کا عمل جائز طریقے سے ہو اور سرمایہ کمانے والے سرمایہ پیدا کرنیوالے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے ٹیکس ادا کریں اور انکی حالت بہتر ہونے سے جب سرمایہ، ہنر، اجرانہ صلاحیتیں اور ٹیکنالوجی کا اشتراک ہو گا تو تبھی اس ملک سے غربت اور جہالت کا خاتمہ ہو سکے گا۔ تبھی عوام کو فلاحی نظام دیا جا سکے گا۔ مگر ہمارے ہاں سود اور منافع اور سٹاک، کرنسی اور زمینی کاروبار میں محض تخمینے بازی کے ذریعے پیداواری عمل کو آگے بڑھائے بغیر جو دولت پیدا کی جا رہی ہے اس سے دولت منجمد ہو رہی ہے اور سرمایے کا ارتکاز چند ہاتھوں یا دفینوں کی صورت میں موجود ہے مگر قومی آمدنی کے دائری بہائو اور گردش دولت کے نہ ہونے سے پاکستان کبھی سرپٹ افراط زر (Hyper Inflation) اور کبھی جمودی افراط زر (Stagflation) کا شکار ہو جاتا ہے جس کے دوران ایک طرف اشیاء و خدمات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور دوسری طرف صنعتی عمل رکنے کی وجہ سے بیروزگاری بھی بڑھ رہی ہوتی ہے آج کے پاکستان میں دولت کے ذخائر انہی کے پاس ہیں جو کرنسی سمگلنگ کالادھن کی سرمایہ کاری زمینوں، جائیدادوں اور اعلیٰ سرکاری حکام اور سیاستدانوں پر کرتے ہیں۔ یہی ہمارا المیہ ہے اور نرم جسم اور سخت بازوں والا آکٹوپس ہمیں دبوچے ہوئے ہے۔

ای پیپر دی نیشن