درختوں کا قتل ۔۔۔خدا مجھے معاف کرے

صدیوں پرانی تہذیب کا امین درخت ۔۔۔۔ وَنْ اکثر و بیشتر پنجاب کی سطح پر اب ناپید ہے۔ اس لیے نسل کے لوگ شاید ان کے نام سے بھی آ شنا نہ ہوں۔ پنجاب میں اب کہیں دور دور تک اس بزرگ درخت کے آثار نظر نہیں آتے ۔ اس کی بڑی وجہ انسانوں کی جنگل دشمنی ہے۔ وَ نْ کا درخت جنگل کے درختوں کے قبیلے کا نامی گرامی درخت ہے۔ اگر آپ اس درخت سے ملاقات کے خواہاں ہیں تو دیہی علاقوں کے قدیم قبرستانوںکا رخ کریں ۔ شاید وہاںیہ درخت آپ کو نظر آ جائیں یا وہ علاقے جہاں ابھی تک حضرت انسان نے فطرت کے کاموں میں مداخلت نہیں کی اور اس علاقے کے وجود کو جو ں کا توں رہنے دیا۔ وہاں اب بھی صدیوں کا بیٹا وَن سینہ تانے اپنے قدیم اور لا زوال ہونے کی گواہی دے رہا ہے۔ جس کے سائے کے لمس سے دھرتی ماں آج بھی ٹھنڈک اور راحت کے احساس میں مبتلا ہے۔ سب جانداروں میں سب سے زیادہ عمر پانے والا یہ بزرگ درخت، انسانوں کے بیچ بزرگی اور تقدس کا مقام رکھتا ہے۔ پنجاب کے معروف دانشور جناب حنیف رامے نے اپنی کتاب ـــ’’پنجاب کا مقدمہ ‘‘ میں بطور خاص وَن کے درخت کا ذکر کیا ہے۔ وَن کا ایک درخت ان کے گائوں کے نزدیک ایک جانب آج بھی موجود ہے۔ رامے صاحب نے اس درخت سے اپنی محبت اور دلی وارفتگی کا ذکر کیا ہے اور فطرت پرست انسانی ـحسیات و جبلیات میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ لاہور سے گائوں جاتے ہوئے رامے صاحب کا گائوں مجھے راستے میں پڑتا ہے۔ گائوں دیکھتے ہی رامے صاحب کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی اس کے لڑکپن کا ساتھی وَن بھی یاد آ جاتا ہے۔ جس کو رامے صاحب نے ’’ پنجاب کا مقدمہ‘‘ میں شامل رکھا ۔ رامے صاحب نے پنجاب کا مقدمہ میں وَن کا ذکر محض حسنِ طبع کے طور پر کیا اور عہد ِ لڑکپن میں دھنک اور وَن کی خوشبو کو یکجا کر کے حسن و ذوق کے پہلو کو اجاگر کیا اور محض ایک وَن کا ذکر کیا۔ مگر میں یہاں اَن گنت وَن کے درختوں کا ذکر کرنے چلا ہوں بلکہ ان کی تباہی اور بربادی پر نوحہ رقم کرنے لگا ہوں۔ جن کو انسانوں کی ایک ہی یلغار سے ملیامیٹ کر دیا۔ لیکن اس سے پہلے میں اس بو ڑھے پیپل کا ذکر ضرور کروں گا جس کو میرے سامنے تقریباََ چالیس سال قبل قتل کیا گیا۔ اس وقت اس کی عمر کا اندازہ اس کے آثار و قرائن سے لگائوں تو گویایہ درخت مہاتما بدھ کے عہد پر ایک سالم تاریخ تھا ۔ اس کے پھیلائو کے زیرِ نگیں زمین کا اچھا خاصا ٹکڑا تھا۔ اگر ایک شاخ کے نیچے ایک خاندان کے لوگ دوپہر کو اپنے مویشیوں سمیت بیٹھے ہیں تو دوسری شاخ کے نیچے ایسا دوسرا خاندان بیٹھا ہے جن کے بیچ قتل کا بَیر ہے۔ مگر وسیع و عریض وجود کا مالک پیپل ان دونوں خاندانوں کو اور بہت سوں کو ٹھنڈک اور امن کے احساس کی بغل میں دبائے رکھتا اور یگانگت اور دوستی کی بارہ ٹہنی کے کھیل میں مبتلا رکھتا۔ کڑی دھوپ کی مسافتوں سے تھکے ہارے راہگیر ان کی ٹھنڈی چھائوں تلے دوپرَہ کرتے ۔ پیپل کے نیچے ایک رہٹ تھا جس کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی نا صرف تشنہ لب کھیتوں کو سیراب کرتا بلکہ آتے جاتے راہگیروں کو بھی اپنی جانب کھینچتا اور ان کی پیاس بجھاتا۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے گائوں کے کچھ نا ہنجار لوگوں نے اس معصوم بوڑھے درخت پر آرا چلا دیا۔ اس کے ملیا میٹ ہونے میں کیا دیر لگی، کیا وقت لگا یہ اس کے جوان اور بوڑھا ہونے کے وقت سے ماپا جائے تو آسمان بھی چیخ اٹھے ۔ اس کے ماتم میں ان گنت پرندے روئے اور ایک نشان جو صدیوں کے بار تلے نہ جھکا انسانوں کے ہاتھوں آن کی آن میں قتل ہو گیا۔ اب کس پہ نوحہ لکھوں پیپل کے قتل پر یا انسانوں کی عقل پر۔یہ درخت صفحہء ہستی سے مٹ گیا مگر اس کی یاد آج بھی میرے قلم کی نوک سے لپٹی خون کے آنسو ں رو رہی ہے۔ کاش رامے صاحب پنجاب کا مقدمہ میں اس مقتول درخت کا مقدمہ بھی شامل رکھتے ۔جس شے سے جذباتی وابستگی ہو جائے اس کے گنا ہ و ثواب کا حساب رکھنا، اس کی اچھائیاں ، برائیاں گنوانا آئینے کو توڑ دینے کے برابر ہوتا ہے۔ درختوں کے فوائدو نقصانات کسی ما ہرِ جنگلات سے پوچھو ، یہ فہرست اس کے پاس ہو گی یا کسی سائنس دان سے یہ کہانی سن لیجیے کہ ان درختوں سے کیا کیا ادویات اور مرکبات تیار ہوتے ہیں اور یہ کہ زمینی زندگی پر ان کے کیا اثرات مرتب ہونے کا احتمال ہے۔ میرے پاس کہانی کا دوسرا رخ ہے کہ جن کے ساتھ پلے بڑھے جوان ہوئے ان کے ساتھ یوں چشم پوشی بد فطرت ہونے کی دلیل ہے۔ ۔ کہانی یوں ہے کہ بس دو چار جملوں میں ختم کرتے ہیںکہ میرے گائوں کا قبرستان ہے۔ یہ قبرستان بس اتنا قدیم ہے کہ محض سَو سال سے کچھ زیادہ کا پرانا ہے۔ مگر اس سے قبل یہاں اس علاقہ پر جنگلات کا بسیرا تھا جو سکڑتے سکڑتے قبرستان کی حد تک رہ گیا جس میں ان گنت وَن کے درخت تھے۔ جو گمان غالب ہے کہ یہ بزرگ درخت سبکتگین اور محمود غزنوی کی عہد کی یاد دلاتے تھے اور یقینا یہ درخت صدیوں کی مسافت طے کر کے ہمارے عہد تک آن پہنچے تھے۔ ان کی آب و تاب اور ہریالی میں وہی تازگی وہی نو رستگی جس کی دعا علامہ اقبال نے اپنی ماں کی قبر پر جا کر مانگی تھی۔ وہی سبزئہ نو رستہ کا جمالی تصور جو اس قبرستان میں مدفون ہزاروں انسانوں پر سایہء فگن تھا۔ جانے کس لالچ کی شَہ پر ایک ٹھیکیدار نے قبرستان پر بلڈوزر چلا دیے اور سینکڑوں کی تعداد میں معصوم اور بوڑھے وَنوں کو قتل کر دیا۔ جن کے ساتھ نا جانے کتنے روحانیوں کو روندا گیا۔ اب قبرستان ان درختوں سے خالی ہے۔ کتنے ہی پرندے اپنے اپنے گھونسلوں کو روئے ہوں گے۔ اگر مال روڈ اور کنال روڈ کے گھنے جنگل سپریم کورٹ کے حکم سے بچائے جا سکتے ہیں تو میں ان عظیم بوڑھے صدیوں پرانے درختوں کو کیوں نہ بچا سکا؟ یہ سوال تا عمر میرا تعاقب کرتا رہے گا۔ خدا مجھے معاف کرے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...