اب ’’مقدس گائے‘‘ کی پوجا کا وقت ہے!!
جنرل (ر) پرویز مشرف ’’بیماری‘‘ کے علاج کے لئے دبئی پہنچ چکے ہیں ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم سندھ ہائی کورٹ نے دیا تھا جسے سپریم کورٹ کے بڑے بینچ نے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں برقرار رکھا اور وفاق کی اپیل مسترد کردی، لارجر بینچ نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ حکومت مشرف کی نقل وحرکت محدود کرنا چاہے تو عدالت عظمیٰ کا فیصلہ اس کی راہ میں حائل نہیں ہوگا، وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اینڈ کمپنی نے ای سی ایل سے نام نکال کر 24 گھنٹے میں مشرف کے ملک سے چلے جانے کی راہ ہموار کی، وزیر داخلہ نے اپنے بیان میں ’’دفاع‘‘ کرتے ہوئے یہ منطق پیش کی کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے تناظر میں مشرف کا ملک سے چلے جانا کسی ہزیمت کے کھاتے میں شما ر نہیں ہوتا!! نیز ’’مشرف کی بیرون ملک روانگی کے پیچھے کوئی سایہ منڈلا رہا ہے نہ ’’بیک چینل‘‘ بات ہوئی ہے!! کیا بات ہے ’’سبحان اللہ‘‘
مشرف کے ’’عدالتی روٹ‘‘ کے ذریعے ’’حکومتی سہولت کاری‘‘ حاصل کرنا آئین، قانون، میرٹ، قانون اندھا ہوتا ہے۔ نظریہ ضرورت دفن ہو چکا، آسمان گر پڑے انصاف کریں گے۔ زبان و وعدے دعوئوں کی پاسداری، بنانا رپیبلک ’’Banana Republic‘‘ جس کی لاٹھی اس کی بھینس! جنگل کا قانون، طاقتور کے لئے ’’لمے پے جائو‘‘! ’’ہڈی‘‘ نکالو، سکون پائو، سانس لو، اقتدار کا دوام اصولوں، ضابطوں سے زیادہ اہم ہے۔ ترازو کا ایک طرف جھک جانا، آرٹیکل 6 فالج زدہ اور دیمک زدہ قانون ہے، اقتدار، پروٹوکول، ٹوہر ٹپہ کے مزے لو، ہماری پتھر چوم کے رکھ دو کے قانونی، عوامی، صحافتی، پولیٹیکل سائنسی نظریات اور عوامی جذبات کا اظہار اور رائے عامہ تشکیل پانا جاری عمل ہے کروڑوں عوام ایسا ہی سوچ رہے ہیں!! یہ تو آخر ہونا ہی تھا بھلا ایک ’’چار ستارہ مقدس گائے‘‘ چاہے چلا کارتوس ہی ہو یا مرا ہوا ہاتھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے کے مصداق عدلیہ، سپریم کورٹ، خصوصی تشکیل کردہ سپریم عدالت برائے ایمرجنسی آرٹیکل 6 مقدمہ سے ’’وزنی‘‘ ہوتا ہے!! آئینی ملزم، بغاوت، سنگین بغاوت کے الزامات، بے نظیر قتل کیس، بگٹی قتل کیس، لال مسجد قتل کیس اور دیگر سے عدالتی کارروائیوں اور عام ملزم کی طرح سلوک کا حق دار نہیں ہوتا نہ جان کو خطرہ ختم ہوتا نہ بیماریاں۔ آکسیجن ماسک لگنے کے مناظر تک (ایک منصوبہ)، نہ جیل، تھانے بند نہ عدالت پیشیاں!! ہر مرتبہ وی آئی پی والا شرمناک عمل!! عدالت، آئین، قانون کو مذاق بنانے والے حکمران اور ترازو والے تاریخ میں برے الفاظ سے یاد کئے جائیں گے، دو تین سال کی بات ہے جسے افتخار چوہدری سابق چیف جسٹس کے ’’لتَے‘‘ میڈیا لے رہا ہے۔
میاں محمد نواز شریف نے کوئی گارنٹی حاصل کی؟ ٹھوس گارنٹی؟ محض ایک ’’بیان‘‘ لے لیا کہ میں علاج کے بعد واپس آئوں گا!! امارات کے حکمرانوں یا امریکی اعلیٰ انتظامیہ سے گارنٹی کیوں نہیں طلب کی گئی بعض سینئر صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ میاں صاحب کی سرور پیلس سعودی عرب منتقلی اور مقدمات ختم کرنے کے پیچھے سعودی و اماراتی حکمران تھے اسی طرح امریکی اعلیٰ حکام، پاکستانی طاقتوری ’’وردی والے‘‘ اور کچھ دیگر ممالک و شخصیات نے مشرف کی بیماری کے بہانے پاکستان چھوڑنے کی راہ ہموار کی لیکن مجموعی طور پر حکومت پاکستان اور نواز لیگی قیادتیں ذمہ دار ہیں نیز ایمرجنسی کے نفاذ کے خصوصی عدالتی بینچ نے بھی ازخود اختیارات کے تحت کوئی ایمرجنسی حکم جاری کیوں نہیں کیا؟ جبکہ آئین شکنی کی دفعہ 6 کا مدمہ 31مارچ کو آگے بڑھنا تھا کیونکہ اس کورٹ نے ملزم (مشرف) کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا تھا کہ ملزم پر فرد جرم عائد کی جا سکے! غازی عبدالرشید مقدمہ میں بھی 2 اپریل کو مشرف کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دے رکھا گیا ہے!
وزیراعظم پاکستان اور ان کی قانونی ٹیم نے فرد جرم عائد ہونے یا گرفتار کر کے پیش کرنے کے فیصلوں اور کارروائی سے ’’نیا طوفان‘‘ اٹھنے سے پہلے ہی مشرف کے 15دن میں 3مرتبہ زیادہ بیماری اور میڈیا کوریج (ہسپتال میں آکسیجن زدہ مشرف) کے پروپیگنڈہ تکنیک کے تناظر میں اپنے سرکاری اعلیٰ وکیل کو سپریم کورٹ میں سرکاری اپیل کے اندر ’’نرم رویہ اور مخالفت نہ کرنے‘‘ کی لائن دے کر اور بعد ازاں مشرف کو ای سی ایل سے استثنیٰ دے کر ثابت کردیا کہ ’’ٹوپی اور چھڑی‘‘ کے آگے یو ٹرن لے لینا ہی پر سکون اقتدار کا درست طریقہ ہے!! اور نظریہ ضرورت عدلیہ کے علاوہ میاں صاحب کا بھی پسندیدہ راستہ اور سمت ہے!! چوہدری نثار علی خان کو تو قطعاً ہزیمت کے کھاتے میں شمار نہ کرنے کا ’’بھوت‘‘ سوار ہے۔ بیان میں وہ مشرف کی روانگی کے پیچھے کسی ’’سائے‘‘ کے نہ منڈلانے کا اعلان کر چکے ہیں!! وزیر داخلہ درست کہتے ہیں ’’سایہ کوئی نہیں منڈلا رہا‘‘ البتہ سائے کی جگہ ’’جن‘‘ کے ’’گرز‘‘ لرزا دیتے ہیں!! زمینی حقیقت بھی یہ ہے کہ کسی کو اچھا لگے، خون کھولے، تڑپے پھڑکے، اچھلے کودے، آسمان سر پر اٹھا لے، خون کے گھونٹ پیئے (میاں صاحب نے بھی پی لیا) ہائے اقتدار!! لیکن طاقتور مالکان پاکستان کو اجتماعی طور پر ناراض کر کے اپنا اقتدار، جماعت، نظریہ، مالی وصنعتی بادشاہت کیوں دائو پر لگانے کا رسک لیا جائے!! بہرحال اب گیند میاں صاحب اور نثار علی خان کے کورٹ میں ہے کہ دو ماہ کے اندر آئینی جرم کا مرتکب ملزم ’’واپس‘‘ آتا ہے، لایا جاتا ہے۔ ’’سہولت کاروں‘‘ کے لئے شعر …؎
’’خنجر پہ کوئی داغ نہ دامن پہ کوئی چھینٹ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو‘‘