کہاجاتاہے کہ غربت اوربیماری میں سوچ بھی غریب اوربیمارہوجاتی ہے،مگردیکھا گیاہے کئی غریب شاہانہ سوچ کی بدولت گدائی سے جست لے کربادشاہی کے تخت پہ براجمان ہوئے اوراسی طرح کئی بیماروںنے دانش و حکمت کے موتی پروتے ہوئے سنہری حروف سے باب رقم کئے۔بلا شبہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان کیلئے قدرت کی طرف سے انمول ،انوکھا اوراچھوتا تحفہ” سوچ “ہی کا ہے ،انکشافات وایجادات سے لے کر ارتقاء تک کا سفر اسی ”سوچ“ ہی کی بدولت ممکن ہوتاہے، سوچ عظیم ہوتو انسان بھی عظیم ہوجاتا ہے،انسانی معراج اسی کے رہینِ منت ہے۔جبکہ زبان سوچ کا مظہرہے جیسے حضرت علیؓ فرماتے ہیں۔”بولو تاکہ تم پہچانے جاو¿“
جیسے کہ ہرچیزکی حیات ونمود کیلئے کچھ ماحول(آب وہوا)اوردیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے،اسی حکمت کے پیش ِ نظر قدرت نے نومولود کی پر ورش کی ذمہ داری والدین کوسونپ دی جب کہ عقل وشعور کی پرورش کیلئے اساتذہ اور روحانی تربیت کیلئے صاحب بصیرت و ادراک، پیامبرمقررفرمائے ہیں۔
تہہ و بالا کی سیاحت ،اور اس سے حاصل ہونے والے مشاہدات وتجربات کومرتب کرنااور پھر اس کے معیارات کومقررکرنابھی سوچ پہ منحصرہے، جبکہ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اس کے زاویئے اور پیمانے کیاہیں؟یہ پیمانے منشائے ایزدی سے مطابقت رکھتے ہیںیانہیں؟ کیونکہ جب کامل ادراک نہ پاکرسوچ کاتوازن برقرارنہیں رہتا تب سے سوچ کئی پیچیدگیوں میںالجھ کرگڈمڈسی ہوکر رہ جاتی ہے ،جس سے یقینا اختلاف رائے نے جنم لیا ،کچھ یارانِ سخن اورفرشتوںکی عظمت کے قائل حضرات کے نزدیک تو فرشتوںکی سوچ عظیم تصور کی جاتی ہے بلکہ صلائے عام میںبھی یہی بات ہے۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فرشتوں سے بلند تر مقام عطافرما کراس کی سوچ کو بھی مقام عطا فرمایاہے(جبکہ اس کے زاویئے اور پیمانے درست ہوں)، تمام مخلوق کوپیدا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ”کن(ہوجا) فرمایا فیکون(پس ہوگیا) “ جبکہ انسان کی تخلیق کی باری آئی تو قاعدہ تبدیل کردیاگیا،یعنی کن نہیںکہاگیا بلکہ انسان کواپنے ہاتھوںسے بنایاپھراس میںاپنی روح پھونک دی،اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو منفردوممتازکرکے عظیم بنادیا،اورپھراس کی عزت وعظمت کاذکرکیاکہ ”میں نے اولاد آدم کو عزت والا بنایا“،اوراس سے کلام کیا ایک اورجگہ فرمایا”میں اس کی شہ رگ کے قریب ہوں“ انسان کے قلب میں اپنے انوار کی جلوہ نمائی کی،اپنی صفات سے متصف فرمایا اوراپنا خلیفہ بنایا، تخلیقِ آدم کے ابتدائی مراحل میںجب فرشتوںنے اللہ تعالیٰ سے کہا”ہم تیری حمد وثنا کیلئے کافی ہیں“ تب اللہ تعالیٰ نے توصیف ِ آدم میں فرمایا ”جومیں جانتاہوںوہ تم نہیںجانتے“
اقبالؒ نے جب انسان کی اہمیت کوسمجھا تو کہا
فرشتہ کہہ کر میری تحقیر نہ کر
میں مسجودِ ملائک ہوں مجھے انسان رہنے دے
ایک مقام پر انسان سے محبت میںفرمایا”ایک انسان کاقتل پوری انسانیت کاقتل ہے“
اب سوال یہ ہے کہ اس قدر عظمت کے حامل انسان کوآخر ایسا کیاہوا؟ جس سے سوچ میںکجی واقع ہوئی،اور انپے من میںڈوب کرسراغِ زندگی کیوںنہ پاسکا؟جس پہ فرشتے سرنگوں ہوئے وہ حقیقت آج ہماری نگاہ سے کیوںاوجھل ہورہی ہے اور سراب میںپاگل ہوئے خون کیوںسستا نظر آتا ہے ؟کسی کاگلہ گھوٹنااورشب خون مارناآسان لگتا ہے، اگرانسان حقیقت میںواقعی عظیم ہے تو پھرہمارے ارباب اختیار وعلم نے ہمیںانسان دانی انسانی بینی کے علم سے کیوںغافل رکھا؟ ہمارے ہاتھ سے وہ سمت نما کہاں چھوٹ گیا؟اب ہمارے من کی بھاشاپہ کس نے تالے لگا دیئے؟ایسے حالات میں اپنی حقیقت سے ناآشنا فرد کے بارے علامہ اقبال ؒ اس کی تنگ نظری،تنگ دلی اوروقت گذاری کے خیالِ خام میں بعض اہلیان ِ مدارس کوموردِالزام ٹھہراتے ہیںکہ مجاہد صفت شاہین پیدا کرنا گھٹی میں دی جانے والی عظمت کی تعلیم سے ممکن ہے۔
گلا توگھونٹ دیا اہل ِمدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہٰ الا اللہ
ہم میںسے جب کسی کو اللہ کے نام پہ دینا ہوتو اپنی جیب میں سب سے چھوٹا سکہ تلاش کرتے ہیں ،اسی طرح مدارس اور دینی تعلیم کیلئے بھی طبی اور معاشی معذوری کی وجہ سے بیشتر طلبا مدارس کا رخ کرتے ہیں ،(مولوی،مدرسین حضرات سے معذرت کیساتھ ) تنگی¿ سوچ کیلئے ایک ادنیٰ سی مثال کچھ ایسے ہے، ہمارے ہاں بعض مدارس کے رائج نظام میں معلم حضرات بچوںکو روٹی لنگر کے حصول میں گھر گھر جانے کا حکم صادرفرما دیتے ہیں۔
یقینا اس سے ایک طفلِ مکتب کی انا مجروح ہوتی ہے مگریہ کام مسلسل کرنے سے یہ بھی عادی بن جاتا ہے اور اس کے ضمیرکی آوازدب جاتی ہے جس سے سوچ کا معیارناقص ہوجاتا ہے پھر سچ سمجھنے اورسچ بولنے کی صلاحیت ناپید ہوجاتی ہے پھر اس کے شعور و لاشعور پہ بھوک ،خوف اور حرص و ہوس کے پردے پڑ جاتے ہیںپھریہی مقصدِ زندگی اور حدف بن جاتاہے ،حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں
جتھے ویکھن چنگا چوکھا پڑہن کلام سوائی ھو
ایسی فکرپیدا ہونے کے بعدیقیناتحقیق ِ حق و ایجادات کی راہیں اسے مسدودومقفل نظرآتی ہیں، دوسرا ظاہر بینی و مادہ پرستی کے نظریہ نے اسے گمراہ کردیا ہے،ایسے شتر بے مہارلوگوںکے رویے عظمت کے خطوط سے ہٹا کر اسے انسانی اقدار سے گرا دیتے ہیں۔ جس سے اس کا تلاش ِ باطن وحقیقت سے عاری ہو کرخود بے باطن ہوجانا ایک فطری عمل ہے، یا اس المیہ کویوں سمجھئیے کہ اپنی کج فہمی کی بنا پہ کچھ نااہل لوگ حضرت آدم کے مٹی گارے سے بنے تاریک و تنگ مادی و خاکی جسم کی ترکیب ربع عناصر پر غور کرتے ہیںاور انا کی آگ بھڑکا کراس میںپھونکی گئی روح کے روشن تر پہلو کوخاموش کرکے اسے ظلمت کدہ ، شروفساداورجرائم کا مجسمہ گردانتے ہیںجبکہ خود کو مصلح اور روشن خیال تصورکرتے ہیں ،ان کی اس بات کو اللہ تعالیٰ نے ایسے بیان فرمایا ”یہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں حالانکہ یہی فاسد ہیں“یہیں سے نفاق کا بیج پھوٹاجس سے سوچ دو شاخہ ہوگئی ہے یعنی مثبت و منفی،اسی لئے علیین سے سجیین کے مسافر کیلئے اس کے بنانے والے نے ٹھیک کہا کہ” انسان گھاٹے میں ہے“ یعنی انسان محدود،تنگ اور منفی سوچ کی بدولت گھاٹے میں ہے۔ عمر بن ہشام رئیس و سردار ، دولت مندتاجر،مشہور سیاستدان جنگجوسپہ سالار اورشاعر ہونے کے باوجود سوچ کی پسماندگی وغربت کا شکار تھا اس لئے سب کچھ ہونے کے باوجوداسے ابوجہل کہا گیااور اس کے زمانہ کو جہالت کا زمانہ ۔
آج بہترین مذہب ،بہترین کتاب اورعظیم سوچ کے حامل کو کس کی نظرکھا گئی؟آج مسلم پرزمین تنگ کیوںہوگئی؟اور کیا ہمارے ارباب اختیار بتا سکتے ہیںکہ ہم جہالت کی رسمیں کیوں نبھارہے ہیں؟ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں ہوگئے ہیں؟ہم اپنی ہی نسل کشی پر عمل پیر کیوںہیں، کفارومنافقین کی تقلید کیوں اچھی لگتی ہے؟ہمارے نصاب ،ہماری تربیت، ہمارے معلم و مدارس ہمیں کہاں لے جانے والے ہیں؟ ہم کہاں سے بھٹکے اور ہماری منزل کیا ہے؟کیونکہ آج ہمیں نہ تو محراب ممبرو مسجد کا تقدس خیال آتا ہے اورنہ انسانیت کی تقدیس کاکچھ پاس، ہمارے معیارات کیوںبدل گئے؟ہم آڑاترچھا کیوںسوچنے لگے ؟ہماری سوچ کو کیا ہوا؟سیدھی راہ کیا ہے اورعبد و معبود کا تعلق کیا ہے؟ ان سب باتوں پہ غور کیوں نہیں۔۔۔۔۔؟
( جاری ہے)
روزینہ شب وقوع پذیر ایسے بے رحمانہ ظلم وستم ،وسفاکانہ قتل دیکھ کراب تویہ گمان ہونے لگا ہے کہ کیا ہم واقعی مسلمان بھی ہیں؟؟؟
سوچ___کاادھورا پن بھی حیاتیاتی سیل کی ادھوری تقسیم کی طرح ہے ،جب حیاتیاتی سیل کی تقسیم میں بگاڑ آتا ہے تب ایک سے دو کی تقسیم کا عمل ابھی پورا نہیں ہوتا ہے کہ دو سے چار کی تقسیم کا عمل شروع ہوجاتا ہے اس ادھوری اور نامکمل تقسیم اور پھر تقسیم در تقسیم کوطب میں کینسر کے مرض سے موسوم کیا جاتاہے۔
ایسے ہی ناقص،ادھوری اورفسادپرمبنی سوچیں بھی قوموںکیلئے کینسر کی طرح ہوتی ہیں،پاکستان میںحالیہ دہشت گردی کے خلاف جاری اپریشن ردالفسادیقینا وقت کاتقاضا اور امن کا ضامن ہے اس لئے اپریشن ردالفسادکی ضرورت واہمیت بجالیکن اس کے دائرے کووسیع کرنے کی ازحدضرورت ہے کیونکہ دہشت گردی اورمجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث مجرم افراد کوقرارواقعی سزادیے جانے کے ساتھ ایسے لوگوںکو بھی شامل تفتیش کیاجاناضروری ہے جوایک پیدائشی مسلم اورروشن مغزکوجرم کے قالب ڈھال کر مجرم بنا دیتے ہیںپھر ایسے لوگ جو سہولت کار بنتے ہیںپھر ایسے لوگ جولبرل اور معتبربن کرسوشل میڈیا، قومی میڈیااورسیاسی و مذہبی پلیٹ فارم سے زبان و بیان سے آزادی اورروشن خیالی کا لبادہ پہناکر نفرت وظلم اورفساد کی ایسی آگ برساتے ہیںجو کسی جگہ بم دھماکے سے کئی گنا زیادہ نقصان دہ اور خطرناک ہے جبکہ اس کا نہ تو کوئی احتساب ہے نہ سزاکاکوئی عمل ۔حالانکہ ردِالفساد کا بہترین فارمولا نبی کریم ﷺ نے عنایت فرمادیاہے”جسم کے اندر گوشت کا لوتھڑا اگر وہ فاسد ہے توسمجھوساراجسم فاسد ہے اگر وہ درست ہے تو پورا جسم درست ہے جان لو وہ دل ہے“
اس لئے برین واشنگ کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا،ہمیں بہت کچھ بدلنے سے پہلے اپنی اصلاح کرنی ہوگی اپنی سوچ کو بدلناہوگااپنے قلب وباطن کی اصلاح سے اپنی سوچ کوعظیم بنانا ہوگا بقولِ اقبالؒ
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو میرا نہیں بنتا تو نہ بن اپنا تو بن
قوموںکی تقدیرجب روٹھ جاتی ہے توحالات بے قابو ہوکر اسطرح کاالمناک تصور پیش کرتے ہیں۔
جب گلشنِ زیست کی آبیاری کرنے والے پتے کاٹنے لگیں،جب فتوے بِکنے لگیں،جب دنیا کی محبت و اناکی جیت میں گردنیں مارنا جائز ہوجائے،جب عزت کا معیار دولت ہو ،جب عدالتیں زیادہ اور انصاف ناپید ہو،جب ترقی یافتہ قوم اخلاقی انحطاط کا شکارہو،تعلیم عام ہو مگرتنگ نظری وتعصب نفرت وکدورت،حر ص و ہوس جیسے خصائل بدسے دور جہالت کی یاد تازہ ہو،جب ظالم حکمران اور جاہل امام بن جائیں،جب گھرگھرسے لیڈرپیداہوںاورجب خداسے نہ ڈرنے والوںسے۔۔۔۔ مخلوق ڈرنے لگے تو سمجھ لو۔۔۔۔!سوچ___غریب ہوچکی ہے، قسمت___ ہار چکی ہے،
اور انسانی اصلاح کا تقاضا بڑھ چکا ہے۔۔۔!!!!