اجیت دوول کا دورہ¿ امریکہ

Mar 22, 2017

نصرت جاوید

بھارتی میڈیا،مودی کے قومی سلامتی کے بارے میں مشیر اجیت دوول کو جیمزبانڈ ایسے پراسرار کردار کے طورپر پیش کرتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی اس کا تذکرہ ضرورت سے زیادہ ہوتا ہے۔ میرا وسوسوں بھرا دل مگر اس کی ”پھرتیوں“ کو اکثر احمقانہ شمار کرنے پر مجبور رہتا ہے۔
بہت اہتمام سے پیر کے روز بھارت کے ”ہندوستان ٹائمز“ میں ”ذرائع“ نے ایک خبر چھپوائی ہے۔اس کے ذریعے اطلاع یہ دی گئی ہے کہ اجیت امریکہ کے چارروزہ دورے پر روانہ ہوگیا ہے۔جمعرات یا جمعے کے دن اس کی واشنگٹن کے وائٹ ہاﺅس میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر سے ملاقات ہوگی۔اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ امریکی اور بھارتی مشیروں کے مابین اس ملاقات کے دوران ڈونلڈٹرمپ بھی Drop Inکرجائے گا۔وہ تینوں مل کر فیصلہ یہ کریں گے کہ پاک-افغان سرحد کو ”مستحکم کرنے“ اور اسے ”داعش“ کے اثر سے محفوظ رکھنے کے لئے کیا حکمت عملی بنائی جائے۔
امریکی حکام کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں بھارتی مشیر افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد بڑھانے پر زور دے گا۔اس کے پاس مبینہ طورپر ایسے ”ثبوت“ موجود ہیں جو ٹرمپ اور اس کے مصاحبوں کو سمجھائیں گے کہ روس،چین اور پاکستان باہم مل کر داعش کا ہوا کھڑا کررہے ہیں۔مقصد اس کادُنیا کو اس سوچ کی طرف راغب کرنا ہے کہ عراق سے اُٹھی انتہاءپسند”داعش“ کا مقابلہ صرف طالبان کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔امریکہ کو اس ”دھوکے“ کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
روس،چین اور پاکستان کے درمیان افغانستان کے حوالے سے بتدریج بڑھتی اور گہری ہوتی ذہنی ہم آہنگی کے بارے میں بھارتی پریشانی آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے۔ ہندوستان ٹائمز میں چھپی خبر لیکن قطعاََ احمقانہ مجھے اس وقت لگی جب دعویٰ یہ بھی ہوا کہ پاکستان کے علاوہ ایران بھی افغانستان میں داعش کی پشت پناہی میں مصروف ہے۔
افغانستان کے تناظر میں یہ دعویٰ اس لئے مضحکہ خیز محسوس ہوتا ہے کہ گزشتہ کئی مہینوں سے بھارت، ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کو گوادر کے متبادل کے طورپر پیش کرنے میں مصروف رہا ہے۔افغانوں کو بتایا جارہا ہے کہ انہیں طورخم اور چمن کے ذریعے پاکستان سے تجارت کی ضرورت نہیں رہے گی۔افغان عوام کی روزمرہّ ضروریات کے لئے اشیائے صرف کی ترسیل بھارت وافر تعداد میں یقینی بنانے کی ہرممکن کوشش کررہا ہے۔یہ اشیاءچاہ بہار تک پہنچ کر افغانستان کے جنوبی علاقوں سے گزرتی ہوئی اس ملک کی منڈیوں تک پہنچ جائیں گی۔ٹرمپ کا دل جیتنے کی جلدی میں اجیت دوول ایران کے بارے میں مگر اب جو کہانیاں گھڑے گا، اسے واشنگٹن نے من وعن تسلیم کرلیا تو افغانوں کے لئے چاہ بہادر کے ذریعے باقی دنیا تک رسائی کے امکانات بھی معدوم ہو جائیں گے۔
ٹرمپ کو امریکی میڈیا مسلسل ایک مزاحیہ کردار کے طورپر پیش کر رہا ہے۔ اس کے بھرپور اثر کی بدولت پاکستانیوں کی اکثریت بھی اس متعصب تاجر کو ایک ایسے صدر کے طور پر لے رہی ہے جسے خارجہ معاملات کی پیچیدگیوں سے قطعاََ دلچسپی اور آشنائی نہیں۔ ٹھنڈے دل سے بہت غور کے بعد مگر میں یہ بات کہنے پر خود کو مجبور محسوس کر رہا ہوں کہ ٹرمپ پنجابی لطیفے والی وہ دوشیزہ ہے جو ”بھولی“ تو ہے مگر اتنی بھی نہیں“۔
ٹرمپ جیسے ”بھولے“نے اقتدار سنبھالتے ہی جنرل Mattisکو اپنا وزیر دفاع مقرر کیا ہے۔"Mad Dog"کی شہرت رکھنے والا یہ جنرل بہت پڑھاکو ہے۔امریکی تاریخ میں جان مارشل کے بعد وہ دوسرا جنرل ہے جسے فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد سات سال مکمل کرنے سے پہلے ہی خصوصی استثنا دے کر ایک سیاسی عہدہ دیا گیا ہے۔ Mattisکو وزیر دفاع بنانے کے بعد ٹرمپ نے خود کو دفاعی معاملات سے عملاً دور کرلیا ہے۔ان دنوں کے مروجہ تصورات کے مطابق ہم کہہ سکتے ہی کہ ڈونلڈٹرمپ نے اپنے ملک کے دفاعی معاملات گویا Mattis کو کاملاً Out Source کر دئیے ہیں۔
ٹرمپ اور Mattisپوری شدت سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ اوباما کے 8سالوں کے دوران ان کا ملک دنیا کی واحد سپرطاقت ہونے کا بھرم برقرار نہیں رکھ پایا۔عراق سے کوئی دور رس حکمت عملی بنائے بغیر امریکی افواج کو واپس بلا لیا گیا۔ افغانستان کو بھی تقریباََ اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ شام کی خانہ جنگی میں اوباما نے ملوث ہونے سے پرہیز کیا۔ ان تمام فیصلوں کی وجہ سے عالمی تناظر میں طاقت کا خلاپیدا ہوگیاجسے روس کے صدر پوٹن نے بڑی ذہانت کے ساتھ پرکرنے کی کوشش کی۔ دریں اثنا صرف اپنی معیشت کو توانا اور مستحکم رکھنے پر پوری توجہ مرکوز رکھنے کے بعد چین بھی عالمی کردار ادا کرنے کو تیار ہو چکا ہے۔CPECاس حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل ایک منصوبہ نظر آ رہا ہے جس کی تکمیل کے بعد وسطی ایشیا سے عرب ممالک کے ساحلوں تک کا وسیع خطہ چین کے زیر اثر آجائے گا اور امریکہ ہر حوالے سے اس خطے سے لاتعلق نظر آئے گا۔
ٹرمپ اور Mattisکی شدید خواہش ہے کہ جلد از جلد کسی نہ کسی صورت دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ امریکہ اب بھی دنیا کی واحد سپرطاقت ہے۔یہ پیغام دینے کے لئے انہیں کوئی ایسا میدان چاہیے جہاں امریکی Power کو بھرپور انداز میں Project کیا جا سکے۔افغانستان کی بدبختی کہ وہ ملک ایک بار پھر وہ میدان بنتا نظر آ رہا ہے جہاں امریکہ اپنی ”طاقت“ دکھانے کو بے چین ہو رہا ہے۔ یہ بات بتدریج عیاں ہو رہی ہے کہ افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد کو بڑھایا جائے گا۔ فوجی قوت کے بل بوتے پر اس ملک میں ایک بار پھر ”دائمی امن واستحکام“ متعارف کرانے کی بھرپور کوشش ہوگی۔
پاکستان کے لئے اس ضمن میں اچھی خبراگرچہ یہ بھی ہے کہ افغاانستان کے لئے ایک نئی حکمت عملی وضع کرتے ہوئے Mattis ہماری اہمیت کے بارے میں پوری طرح باخبر ہے۔ اپنی تعیناتی کے لئے سینٹ کی متعلقہ کمیٹی کے روبرو اپنے خیالات کے اظہار کے لئے اس نے جو لکھا ہوا بیان دیا اس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان سے دھونس کے ذریعے Do More کے تقاضے نہ کئے جائیں۔ زیادہ بہتر ہوگا کہ پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے امریکہ کی مدد کرنے پر قائل کرنے کے لئے ٹھوس Incentives پر مبنی کوئی پیکیج تیار کیا جائے۔میں بضد ہوں کہ اجیت دوول پاکستان کے بارے میں Mattisکی تجویز کردہ Rethinkکے خیال سے گھبراگیا ہے۔ اس کا امریکہ دورہ درحقیقت ٹرمپ کو ”ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں“ والا پیغام دینے کی ایک کوشش ہے جسے ہندوستان ٹائمز نے داستان گوئی کے ذریعے ایک معرکةالآراسفر بنانے کی کوشش کی ہے۔

مزیدخبریں