نئی دہلی (نیوز ڈیسک) بھارتی سپریم کورٹ نے ایودھیہ میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے حوالے سے فیصلہ دینے سے معذرت کرتے ہوئے فریقین کو ہدایت کی ہے کہ وہ معاملہ عدالت سے باہر حل کریں۔تفصیلات کے مطابق حکمران جماعت بی جے پی کے رہنما سبرامنیم سوامی نے عدالت میں گزشتہ چھ سال سے زیر التوا رام مندر کیس کی جلد سماعت کے لئے درخواست دائر کی تھی جس پر سپریم کورٹ نے متعلقہ فریقین سے پوچھا کہ کیا وہ اتفاق رائے سے یہاں آئے ہیں ۔ سپریم کورٹ نے مزید کہا بابری مسجد ،رام مندر مسئلہ انتہائی حساس اورمذہبی نوعیت کا ہے اس کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کے لئے ضروری ہے تمام فریقین عدالت کے باہر مل بیٹھ کر اس کا حل نکالیں جبکہ عدالت نے سوامی کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ تمام متعلقہ فریقین سے مشاورت کے بعد 31 مارچ کوفیصلہ بارے آگاہ کرے جبکہ تمام فریقین رضا مند ہوں تو مسئلے کو حل کرنے کے لئے عدالت مصالحت کارکا تقرر کر سکتی ہے، چیف جسٹس آف انڈیا جے ایس کھیر نے یہ بھی کہا کہ اگر فریقین راضی ہوں تو وہ چیف جسٹس بھی مصالحانہ کردار ادا کر سکتے ہیں تمام فریقین ساتھ مل بیٹھیں اور پر امن مذاکرات سے تنازع حل کریں دوسری طرف عدالت کے باہر آتے ہی انتہا پسند ہندو رہنما بسرا منیم سوامی نے اپنی اصلیت دکھا دی اور کہا کہ ہم ایودھیا میں رام مندر کی جگہ تبدیل نہیں کر سکتے یہ بھگوان رام کی جائے پیدا ئش ہے یہ ہمارے عقیدے کا معاملہ ہے مسلمان بابر مسجد کہیں اور بنا لیں دریائے سرایو کے دوسرے کنارے پر بنا لیں تماز تو مسلمان کہیں بھی ادا کر سکتے ہیں رام جنم بھومی والی ساری کی ساری جگہ ہماری ہے یہ جگہ ہمارے حوالے کر دی جائے۔ ہم رام کی جائے پیدائش کو تبدیل نہیں کر سکتے دریں اثناء انتہا پسند ہندو تنظیم و شوا ہندو پراشید کے سر براہ پراوین تو گڑیہ نے مودی سرکار سے مطالبہ کیا کہ وہ رام مادر کی تعمیر کیلئے قانون سازی کرے بابری مسجد والی جگہ رام مندر رام جنم بھولی نیاس کی ملکیت ہے اسے ہمارے حوالے کیا جائے انہوں نے کہا کہ باہمی مذاکرات سے 1991ء میں وزیر اعظم چندر شیکھر نے تنازع حل کرانے کے لئے فریقین کو ساتھ بٹھایا مگر بابری مسجد ایکشن کمیٹی مذاکرات چھوڑ کر چلی گئی تھی ادھر بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے صدر ظفریاب جیلانی نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اتنے سال بعد بھی اگر فریقین نے خود تنازعہ طے کرنا تھا تو عدالتوں نے معاملہ اتنے سال کیوں لٹکائے رکھا اس مسئلے کا باہمی سطح پر حل نکالنا نا ممکن ہے۔